کتاب: محدث شمارہ 34 - صفحہ 41
حکم دیا۔
﴿اَوْفُوْا الْکَیْلَ اِذَا کِلْتُمْ وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيْم ذَالِكَ خَيْرٌ وَاَحْسَنُ تَاوِيْلًا﴾ (بنی اسرائيل ۳۵)
(پیمانے سے دو تو پورا بھر کر دو۔ اور تولو تو ٹھیک ترازو سے تولو، یہ اچھا طریقہ ہے اور بلحاظ انجام بھی بہر ہے)
اس کے برعکس ناپ تول میں کمی بیشی کرنے والوں کو سخت عذاب کی وعید سنائی۔ تجربہ شاہد ہے کہ انفرادی و اجتماعی ہر لحاظ سے تقویٰ پیدا کرنا اور اُخروی عذاب سے بچنے کی تلقین و ترغیب دلوں کے اندر پیدا کرنا سخت جسمانی سزاؤں اور مالی جرمانوں سے کہیں مؤثر ثابت ہوتا ہے۔
﴿وَیْلٌ لِلْمُطَفِّفِیْنَ٭ الَّذِیْنَ اِذَا اكْتَالُوْا عَلَيْ النَّاسِ يَسْتَوْفُوْنَ وَاِذَا كَالُوْھُمْ اَوْ وَّزَنُوْھُمْ يُخْسِرُوْنَ٭ اَلَا يَظُنُّ اُوْلٰئِكَ اَنَّھُمْ مَبْعُوْثُوْنَ لِيَوْمٍ عَظِيْمٍ يَّوْمَ يَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِيْنَ.﴾(تطفيف. آيت۱-۶)
(ہلاکت ہے (ناپ تول میں) کمی بیشی کرنے والوں کے لئے کہ جب لوگوں سے ناپ کر لیں تو پورا لیں۔ اور جب انہیں ناپ کر یا تول کر دیں تو گھٹا کر دیں۔ کیا انہیں اس بات کا یقین نہیں کہ وہ دوبارہ اُٹھائے جائیں گے ایک بڑے سخت دن جس دن کہ لوگ اپنے ربکے روبرو کھڑے ہوں گے۔)
چنانچہ آپ کبھی کبھی بازار نکل جاتے، اور اوزان اور پیمانوں کی دیکھ بھال کرتے (بعد میں اسی بناء پر یہ چیز اسلامی حکومت کے فرائض میں داخل ہو گئی کہ وہ ہر قسم کی بد دیانتی اور بے ایمانی کو روکے) آپ خرید و فروخت میں زیادہ قسمیں کھانے کو بڑا ناگوار سمجھتے اور نصیحت فرماتے: اِیَّاکُمْ وَکَثْرَۃَ الْحلف فی البیع فانه ینفق ثُمَّ یَمْحَقُ (مسلم عن ابی قتادۃ) (یعنی بیع میں زیادہ قسمیں کھانے سے احتیاط برتو، کیونکہ اس طرح مال تو بک جاتا ہے، مگر برکت جاتی رہتی ہے۔
مسلم کی دوسری روایت میں ابو ذر سے مروی ہے کہ جھوٹی قسموں سے اپنا سامان بیچنے والے شخص کی طرف اللہ تعالیٰ روزِ قیامت قطعاً نظرِ التفات نہ فرمائے گا، نہ ان سے کلام کرے گا، نہ ان کو گناہوں سے پاک کرے گا۔ آپ تجارت میں ہمیشہ نرم روی، احسان کرنے اور درگزر کرنے کی تلقین فرماتے۔ آپ نے بیان فرمایا کہ پہلی امتوں میں سے ایک شخص فوت ہونے لگا۔ ملک الموت نے اس کی روح قبض کرتے وقت اس سے پوچھا۔ ’’تم نے کبھی کوئی نیک کام کیا ہے؟ وہ بولا مجھے کچھ معلوم نہیں۔ فرشتہ بولا غور کرو، اس نے عرض کی۔ مجھے اتنا معلوم ہے کہ میں تجارت میں لوگوں سے حسنِ معاملہ سے پیش آتا۔ امیر کو مہلت دیتا اور نادار کو معاف کر دیتا۔‘‘