کتاب: محدث شمارہ 34 - صفحہ 40
اس کے گناہ کا کفارہ ادا نہیں ہو سکتا‘‘ اور ’’جو شخص مسلمانوں کا غلہ روک لے تو اسے اللہ تعالیٰ جذام (بدنی ابتلاء) اور افلاس (مالی نقصان) میں مبتلا کر دے گا۔
سٹہ بازی کی قبیح لعنت بھی کم و بیش ہر تاجر میں پائی جاتی ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلمنے اس سے سختی سے منع فرمایا ’’جو شخص کسی سے کوئی چیز ادھار خریدے، پھر اس پر پوری طرح قبضہ کیے بغیر اسے آگے فروخت نہ کرے، ابن عباس سے روایت ہے کہ حضور نے جس بات سے منع فرمایا وہ یہ ہے کہ غلہ پر قبضہ ہونے سے پہلے ہی اسے فروخت کیا جائے۔ اور میرے خیال میں ہر چیز کا معاملہ یکساں ہے۔ (متفق علیہ)
کاروباری امانت و دیانت سے اگر شخص اخلاق بہت بلند ہو جاتا ہے تو دوسری طرف یہ چیز سماج کی تعمیر ترقی اور بقا کے لئے بھی بہت ضروری ہے، یہ صاف ستھری تجارت جس میں انسان ہر قسم کے مادی نفع و نقصان سے بالا تر ہو کر امانتداری کے اصولوں کو اپناتا ہے۔ یہ اس کے لئے دنیا میں ہر اعتبار سے مفید رہتی ہے۔ اسی سے باہمی اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ بائع اور خریدار چاہے فرد کی سطح پر ہوں یا گروہوں یا قوموں کی سطح پر، ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہیں اور بالآخر یہ بھروسہ اور اعتماد کی فضا ہی تاجروں کی ساکھ اور شہرت کو قائم کر کے ان کے لئے خوشحالی اور ترقی کے دروازے کھولتی ہے۔ اخروی لحاظ سے بھی دیانتدار تاجر ہی کامیاب ترین ثابت ہو گا، جیسا کہ نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا:
’’امانت دار اور راستباز تاجر قیامت کے روز صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ اُٹھایا جائے گا۔‘‘
اس کے برعکس تجارتی معاملات میں بد دیانتی اور کاروبار میں لوگوں سے دھوکا فریب اگر ایک طرف خود انسان کو مادہ پرست اور پست اخلاق بناتا ہے تو دوسری طرف اس کی زد قوم کے ہر فرد بشر پر پڑتی ہے۔ جب یہ ذہنیت پروان چڑھنے لگتی ہے کہ تاجر اپنا حق پورا وصول کرنے اور دوسروں کا حق مار لینے کو ہی اپنا فائدہ سمجھتا ہے تو اس سے بے شمار اخلاقی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں، اور زندگی کا پورا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ آپس کا بھروسہ و اعتماد جاتا رہتا ہے۔ تعلقات خراب ہوتے ہیں۔ ہر شخص دوسرے سے بڑھ کر بے ایمانی اور بد معاملگی کرنے پر تُل جاتا ہے۔ اور پھر یہ برائی ہر قدم پر دوگنی او چوگنی ہوتی ہے، بالآخر پورا معاشرہ اس کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔
مثال کے طور پر ایک ملاوٹ ہی کو لیجیے۔ جس سے ایک مفید اور خاص چیز عمداً اپنی ذاتی مفاد کی خاطر مضر اور مسموم بنا کر تاجر عوام کی صحت پر ڈاکہ ڈالتے ہیں اور عوام کو صنعت کاروں اور کارخانہ داروں کے خلاف اکساتے ہیں۔ جس سے امیر و غریب کی طبقاتی جنگ پیدا ہوتی ہے۔
اسی لئے آپ نے بطور اہم اصول و قانون کے مسلمانوں کو وزن و تول وغیرہ کا پورا پورا خیال رکھنے کا