کتاب: محدث شمارہ 34 - صفحہ 38
چالیس برس کی عمر میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو منصبِ نبوّت سے سرفراز فرمایا اور بتدریج آپ کے کندھوں پر تمام دنیا کی ہدایت و رہبری کا بوجھ ڈال دیا۔ اب آپ نے اپنی گوناگوں مصروفیات کی بنا پر تجارت کو خیر باد کہا۔ اپنے تمام تر قویٰ اور صلاحیتیں اپنے عظیم تر مشن یعنی تحریکِ اسلامی کی تبلیغ پر صرف کر دیں۔ اس نئی تحریک اور نئے دین کی تبلیغ میں تن و من دھن کی بازی لگا دی، آخر تیرہ سال کی زہرہ گداز اور جانگسل کشمکش کے بعد آپ مدینہ منورہ میں ایک فلاحی اسلامی مملکت کی داغ بیل ڈالنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس اسلامی ریاست میں تمدّن کے ہر شعبے میں گوناگوں انقلاب انگیز اور روح پرور اصلاحات نافذ فرمائیں۔ جن کی بنیاد خدا ترسی، ایمانداری توحید و رسالت، راستبازی صدق و امانت اور آخرت میں جوابدہی کے احساس پر رکھی۔ اس طرح دین و دنیا، مذہب و سیاست، معیشت و معاشرت، اخلاق و اعمال حقوق اللہ و حقوق العباد غرض کہ ہر شعبہ زندگی کو رضائے الٰہی کے تابع کر دیا۔
اس دور میں آنحضورصلی اللہ علیہ وسلمنے ایک انقلابی ضابطہ اخلاق مقرر فرمایا یہ ضابطۂ اخلاق اتنا تابندہ و درخشندہ ہے کہ اس کے کسی اصول یا قانون پر کسی کو انگلی اُٹھانے یا حرف گیری کرنے کی مجال نہیں اور اس پر عمل پیرا ہونے سے کسی قوم مالی بحران پیدا نہیں ہو سکتا۔ زراعت یا کسی دوسرے ذریعۂ معاش کی نسبت آپ تجارت کو بہت پسند فرماتے تھے ۔[1]
آپ سے ایک بار سوال ہوا کہ کونسی کمائی پاکیزہ ترین ہے؟ فرمایا ’’اپنے ہاتھوں سے کام کرنا اور ہر حلال و جائز بیع۔‘‘ (احمد عن رافع بن خدیج)
’’دینی فرائض کی بجا آوری کے بعد سب سے بڑا فرض حلال طریقے سے اپنی معاش حاصل کرتا ہے۔‘‘
تجارت میں حلال اور جائز ذرائع اختیار کرنے پر بڑا زور دیا اور ہر طرح کے ناجائز کاروبار سے منع فرمایا۔ ایک بار ایک شخص کا ذکر کیا جو سفر پر سے آرہا ہو۔ سفر کی وجہ سے گرد و غبار میں اٹا ہوا اور پراگندہ بال ہوں۔ وہ ہاتھ اُٹھا کر بآواز بلند بارگاہ الٰہی سے التجا کرے ’’اے میرے رب‘‘۔ ’’اے میرے رب‘‘ حالانکہ اس کا کھانا پینا، اوڑھنا بچھونا اور خوراک و لباس سب حرام آمدنی کے ہیں سو اس کی دعا کیسے قبول ہو سکتی ہے؟‘‘ (مشکوٰۃ بحوالہ مسلم)
[1] بیع کرنے والوں کانام سب سے پہلے آپ نے ’’تاجر‘‘ رکھا ۔ پہلے انہیں ’’سماسرا‘‘ کہاجاتا تھا۔ اور اس نئے نام کو لوگوں نے بہت پسند کیا ۔