کتاب: محدث شمارہ 34 - صفحہ 36
کر رکھی تھی۔ انہوں نے حضورِ کریم کی تعریف سنی تو خواہش ظاہر کی کہ آپصلی اللہ علیہ وسلمان کا سامانِ تجارت سر زمینِ شام کی طرف لے جائیں اور معاملہ یہ طے ہوا کہ وہ آپ کو دوسرے لوگوں کی نسبت دوگنا منافع دیں گی۔ انہوں نے اپنے غلام میسرہ کو بھی آپ کے ہمراہ کر دیا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلمنے اپنے چچا حضرت ابو طالب سے مشورہ کرنے کے بعد یہ پیش کش قبول کر لی اور میسرہ کے ہمراہ ۲۳ یا ۲۴ برس کی عمر میں دوسری بار شام کی طرف روانہ ہوئے۔ اس سفر میں حضرت خدیجہ کو پہلے کی نسبت تگنا چگنا نفع حاصل ہوا۔ ساتھ ہی میسرہ نے آپ کے حُسنِ معاملت اور صداقت و امانت کی چشم دید داستان سنائی تو حضرت خدیجہ آپصلی اللہ علیہ وسلمسے اس قدر متاثر ہوئیں کہ اپنی سہیلی یا کنیز نفیسہ کے ہاتھ فی الفور آپ کو شادی کا پیغام بھجوا دیا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلمنے اپنے چچا سے مشورہ کرنے کے بعد بشرح صدر ان کا یہ پیغام قبول فرمایا۔ اس طرح یہ پچیس سالہ نوجوان اپنے سے پندرہ برس بڑی خاتون سے جو پہلے دو دفعہ بیوہ ہو چکیں تھیں، رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو گیا۔ نکاح کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنا سال مال حضورصلی اللہ علیہ وسلمکے قدموں پر نچھاور کر دیا۔ مگر آپ نے ان کا سارا مال غریبوں، بیواؤں اور یتیموں کی امداد پر صرف کر دیا اور اپنی معاشِ تجارت کو برقرار رکھا۔ اسی سے اپنے کنبے کی گزر بسر کرتے۔ اس دورِ جاہلیت کا ایک واقعہ حضرت عبد اللہ بن الحمساء سے منقول ہے، کہ بعثت سے قبل خرید و فروخت کے معاملے میں انہوں نے حضورصلی اللہ علیہ وسلمکے ساتھ وعدہ کیا کہ آپ یہاں ٹھہریں میں ابھی گھر سے قیمت لے کر آتا ہوں۔ مگر گھر جا کر وہ اپنے وعدے کو بھول گئے اور بات آئی گئی ہو گی۔ تیسرے روز اتفاقاً عبد اللہ کا گزر اسی مقام سے ہوا۔ تو دیکھا کہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلماسی جگہ قیام فرما ہیں۔ آپ کو دیکھ کر انہیں اپنا وعدہ یاد آیا تو آپ سے معذرت کی آپ ان سے ناراض ہوئے نہ ڈانٹ ڈپٹ کی، بس اتنا کہہ کر خاموش ہو گئے۔ ’’عبد اللہ تم نے مجھے بڑی زحمت دی ہیں، میں تین دن سے اسی جگہ کھڑا ہوں۔‘‘ (ابو داؤد) عرب میں ہر سال جو مشہور تجارتی میلے منعقد ہوتے۔ تو حضور کریمصلی اللہ علیہ وسلمبھی اپنا سامان تجارت ان میلوں میں لے جایا کرتے آپ کی دیانتداری کی بنا پر آپ کا سامان میلے میں آتے ہی ہاتھوں ہاتھ بک جاتا۔ ایک دفعہ ایک میلے میں آپ بیس اونٹ لائے مگر اسی وقت کسی کام سے باہر جانا پڑ گیا، تو اپنے غلام کو تاکید کر گئے کہ ان اونٹوں میں سے ایک لنگڑا ہے۔ اس کی نصف قیمت وصول کی جائے۔‘‘ فارغ ہو کر آپ واپس تشریف لائے تو اونٹ فروخت ہو چکے تھے۔ غلام سے دریافت فرمایا تو اس نے