کتاب: محدث شمارہ 34 - صفحہ 35
گئے۔ اور پوری قوم میں آپصلی اللہ علیہ وسلمکا نام ’صادق‘ اور ’امین‘ مشہور ہو گیا۔ آپ کی راستبازی اور حسنِ کردار کا سکہ ہر فرد بشر کے دل پر بیٹھ گیا[1] اور مکہ کے بڑے بڑے تاجر اور مالدار یہ خواہش کرنے لگے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلمان کے سرمایہ اپنے ہاتھ میں لے کر ان کے کاروبار چمکائیں۔ آپصلی اللہ علیہ وسلمکچھ دیر تک سائب بن قیس مخزومی کے سرمایہ سے تجارت کرتے رہے۔ بلکہ انہوں نے ہی آپصلی اللہ علیہ وسلمکو تاجر امین کا لقب دیا تھا۔
ان دنوں مکہ میں سب سے زیادہ مال دار ایک معزز خاتون خدیجہ بنت خویلد تھیں۔ جو دوبارہ بیوہ ہو چکی تھیں۔ انہوں نے باپ سے کثیر جائیداد ورثے میں پائی تھی۔ اور اب تمام تر توجہ تجارت کی طرف مبذول
[1] آپ کی امانت و دیانت کی متعدد مثالیں ہمیں آپ کی سیرت مقدسہ میں نظر آتی ہیں ۔ مثلاً نبوت سے سرفراز ہونے کےبعد جب آپ کو اعلان توحید واشگاف الفاظ میں سنانے کاحکم ہوا تو آپ کوہ صفا پر چڑھ کئے ارو پوری قوم کو ندادی ۔ جب عوام الناس اکٹھے ہو گئے تو آپ نے فرمایا :’’ اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے سے ایک حملہ آور فوج چلی آ رہی ہے ۔ تو کیا مجھ پر اعتماد کرو گے ۔ ‘‘ تمام مجمع بیک زبان پکارا۔ ’’کیوں نہیں ہم نے آپ کو ہمیشہ سچ بولتے پایاہے ۔ ‘‘
قبیلہ اراش کے ایک شخص کاقصہ بڑا دلچسپ ہے۔ وہ کسی کام کے لیے مکہ آیا۔ اس کے پاس ایک اونٹ تھا۔ ابو جہل نے اس اونٹ کا سوداکر لیا ۔ مگر قیمت ادا کرنے میں لیت ولعل کی ۔ وہ مکہ میں اجنبی تھا ۔ اس لیے کیےبعد دیگرے اشراف مکہ کے پاس فریاد کرنے کے باوجود اس کی مقصد برآدمی نہ ہو سکی ۔ ایک دفعہ اشراف مکہ کی مجلس جمی ہوئی تھی ، فوراً وہاں پہنچا۔ اور تمام اہل مجلس سےاپیل کی کہ مجھےجیسے بےآسرا مسفار کو کوئی شخص ابو جہل سے اونٹ کی قیمت دلادے۔ مگر تمام مجلس میں سے کسی کو یہ جرأت نہ ہوسکی ۔آخر ان میں سے ایک شخص از راہ تمسخر بولا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ ابی وامی) کے پاس جاؤ تمہیں قیمت وصول ہو جائے گی ۔ (ان دنوں ابو جہل کی عداوت رسول اپنے پورے جوبن پر تھی۔ وہ غریب فی الفور حضور کے پاس پہنچا۔ اور ماجرا بیان کر کے مدد کی درخواست کی ۔ آپ فوراً اس کے ساتھ چل دیئے ابو جہل کےمکان پر تشریف لائے اوردروازہ کھٹکھٹایا ۔ ابو جہل نے دروازہ کھولا۔ اس شخص کو آپ کےہمراہ دیکھ کراس کا رنگ فق ہوگیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شخص کا حق اسے ادا کر دو ۔ ابو جہل نے بے چون و چرا فوراً قیمت ادا کر دی ۔ بعد میں ابو جہل نے شرکائے مجلس سے اعتراف کیا؟ اس شخص (محمد) نے میرا دروازہ کھٹکھتایا تو اس کی آواز سن کر یکایک مجھ پر ناقابل بیان رعب طاری ہو گی ۔