کتاب: محدث شمارہ 34 - صفحہ 33
محفلیں آراستہ کیں۔ جن سے بڑے بڑے مفسرین، محدثین، فقہاء، قاضیوں، فلسفیوں وغیرہ نے جنم لیا۔ اس طرح حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلمنے ایک عظیم امت کی تشکیل کی۔ بلاشبہ عظیم شخصیتیں ہی تاریخ ساز ہوتی ہیں کیونکہ تاریخ عظیم کارہائے نمایاں انجام دینے والوں اور صفحہ ہستی پر انمٹ نقوشِ کارکردگی ثبت کرنے والوں کے تذکرے کا ہی نام ہے۔ آپ سے پہلے روم و ایران کا نام تاریخ تھا۔ اور روئے ارضی پر انہی کا سکّہ رواں دواں تھا۔ انہی کی تہذیب و تمدّن، علوم و فنون کا ہر جا چرچا تھا، انہی کا ہر جگہ دبدبہ، رعب اور غلغلہ تھا۔ آپ اُٹھے تو تاریخ کا رخ بدل کر رکھ دیا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلمنے نہ صرف روم و ایران کی سطوت و شوکت کو ختم کیا بلکہ تمام اقوامِ عالم پر اپنی بالا دستی قائم کر دی۔ اس مختصر سے مقالے میں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلمکی شخصیت کے گوناگوں پہلوؤں میں سے ایک پہلو یعنی ’’انسانِ اعظم بحیثیت تاجر‘‘ پر قدرے تفصیل سے بحث کریں گے۔ کیونکہ ہمارے اس مضمون کا مرکزی نقطہ یہی ہے۔ اس پہلو پر گفتگو کرنے کے لئے ہمیں جزیرہ نمائے عرب کے ماحول پر نگاہ ڈالنی ہو گی، جو ایک بالکل بے آب و گیاہ علاقہ ہے۔ جہاں کھیتی باڑی کرنے یا مویشی پالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور چونکہ اس دور میں اہلِ عرب علم و ہنر اور فنون سے بھی نا آشنا تھے۔ اس لئے ان کے لئے معاش کے طور پر ایک پیشہ تجارت ہی بہترین قرار پا سکتا تھا۔ ویسے بھی جزیرہ نمائے عرب دنیا کے عین وسط میں ہونے کی بنا پر مختلف مملکوں کے درمیان ایک بہترین مقامِ اتصال تھا۔ اس لئے یہاں کے باشندوں کا عام پیشہ تجارت تھا۔ اور وہ تجارت کے سلسلہ میں دور دراز کے ممالک کی طرف سیاحی کرتے رہتے تھے۔ ان کے تجارتی قافلے ایک جانب تو بحر ہند سے لے کر بحیرۂ روم تک اور دوسری جانب جنوبِ عربمیں عمان و یمن سے لے کر شمال میں فلسطین و شام تک چلتے رہتے تھے، اس طرح یہ بڑی بڑی تجارتی شاہراہیں انہی کے قبضہ میں تھیں اور ان کے بڑے بڑے تجارتی کاروان مال و اسباب سے لدھے ہوئے آتے جاتے رہتے تھے۔ موسم گرما میں ان کے سفر شمال میں شام کی طرف ہوتے اور موسم سرما میں جنوب میں عمان و یمن کی طرف۔ آبادی کا بیشتر حصہ اسی تجارت پر گزر بسر کرتا، اپنا بیشتر سرمایہ تجارتی کاموں میں لگائے رکھتا۔ قافلوں کی واپسی پر منافع آپس میں تقسیم ہوتے۔ یہ تاجر پیشہ لوگ دوسرے باشندوں کی نسبت اور آسودہ تھے۔ ان میں سے قبیلہ قریش