کتاب: محدث شمارہ 34 - صفحہ 31
ثریاؔ بتول (ایم۔اے)
رسولِ اکرمصلی اللہ علیہ وسلمبحیثیت تاجر
یوں تو نوعِ انسانی کے بلند پایہ طبقوں میں ہزاروں لاکھوں انسان نمایاں ہیں۔ جنہوں نے اپنی زندگیاں اپنے بعد میں آنے والے لوگوں کے لئے مشعلِ راہ اور نمونہ کے طور پر پیش کی ہیں مگر ان کی طویل فہرست میں سے انبیائے کرام کی سیرت ہی بطورِ خاص عوام الناس کے لئے اسوہ اور بہترین نمونہ ہیں۔ کیونکہ ان کی سیرتیں ہر لحاظ سے بے داغ اور ان کا دامن حسنِ اخلاق و کردار سے آراستہ و پیراستہ ہیں۔ پھر اس گروہ انبیاء میں سے بھی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلمکی سیرت سب سے زیادہ درخشاں اور تاباں ہے۔ جملہ انبیائے کرام اپنی امتوں کو وعظ و نصیحت فرماتے ہیں رہے۔ انہیں عذابِ الٰہی سے ڈراتے رہے اور اللہ تعالیٰ کے اجر و ثواب اور انعامات کے حصول کے لئے ترغیب و تحریص دیتے رہے۔ بعض انبیاء نے اپنی امتوں کوظالم و سفاک بادشاہوں کے پنجہ استبداد سے بھی نجات دلائی۔ مگر ان انبیاء کا دائرہ کار محدود تھا۔ وہ اس وعظ و نصیحت، انداز و تبشیر، ترغیب و تحریص یا بصورتِ بعض فرعونی و نمرودی طاقتوں سے نجات و آذادی سے آگے نہ بڑھ سکی۔ لیکن حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلمکی ذات ہمہ صفت موصوف تھی۔ آپ کو تاباں و درخشاں شریعت دے کر اللہ تعالیٰ نے بہت سے اہم مناصب بیک وقت مرحمت فرما دیئے تھے۔ آپ ایک جلیل القدر پیغمبر اور نبی آخر الزمان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نظریاتی فلاحی ریاست کے بانی بھی تھے۔ اس طرح اگر آپصلی اللہ علیہ وسلممصلحِ اعظم تھے تو ایک بے نظیر سیاستدان بھی۔ قائدِ لشکر تھے تو عظیم فاتح بھی۔ اگر عظیم سربراہِ مملکت تھے تو بے عدیل قاضی القضاۃ