کتاب: محدث شمارہ 34 - صفحہ 30
کر کے عدالت میں پیش کر دیتے ہیں۔ عدالت اسے اس الزام سے بری قرار دے دیتی ہے۔ اس کے بعد انتظامیہ نے کبھی اصل قاتل کو تلاش نہیں کیا۔ کیا مقتول بھی اس فیصلہ کے بعد زندہ ہو گیا ہے؟ اور قتل قتل نہیں رہا؟؟ اسلام کا قانون ایسے ناقص انصاف کا قائل نہیں یہاں مجرم خود پیش ہوتا ہے اور پھر سب سے آخری عدالت کا فیصلہ اور فیصلے کا آخری دن بہرحال باقی ہے۔ یہ وہ نظام ہے جو ان فطری حقائق کی بنیاد پر قائم ہوا ہے اور قائم رہنا اس کے لئے مقدّر ہو چکا ہے۔ ہزاروں ہزار درود و سلام ہوں اس محسنِ انسانیت کی مقدس ذات پر جس نے انسانی جان کی حفاظت اور امن امان کے قیام کے لئے صرف ایک بے مثال قانون ہی پیش نہیں کیا بلکہ اس مثالی قانون کے اجراء و نفاذ کے سلسلہ میں وہ وہ سہولتیں پیدا کیں، تحریکیں اُٹھائیں اور اپنی پاک زندگی کے ایسے ایسے عملی نمونے پیش کئے جن سے یہ قانون خود بخود نفاذ و اجراء کی ایک فعال قوت بن گیا۔ ماننے والوں نے مجبور ہو کر نہیں مانا بلکہ مقنن کی موجودگی اور رہنمائی ہی میں اپنے نہ ماننے پر متاسّف ہوئے اور دورِ انکار پر پچھتائے۔ (رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ کَانُوْا مُسْلِمِیْنَ) اَللّٰھُمَّ صل علٰي مُحمّد وعلٰي اٰل مُحمّد صلاة تامًا وبارك وسلم رہِ خُلد ہے راہِ کوئے محمدصلی اللہ علیہ وسلم عبد الرحمٰن عاجزؔ ہر اک لب پہ ہے گفتگوئے محمد ہر اک دل میں ہے آرزوئے محمدصلی اللہ علیہ وسلم فرشتوں میں پائی نہ انساں میں دیکھی جہاں سے نرالی ہے خوئے محمدصلی اللہ علیہ وسلم گرفتار جن کی ہے جانِ دو عالم وہ ہیں گیسوئے مشکبوئے محمدصلی اللہ علیہ وسلم یہ دل چاہتا ہے وہ لب چوم لوں میں کہ جس لب پہ ہو گفتگوئے محمدصلی اللہ علیہ وسلم برسنے لگی مجھ پہ رحمت خدا کی چلا جھوم کر جب میں سوئے محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہو میدانِ محشر کہ فردوسِ اعلیٰ رہوں ہر گھڑی روبرئے محمدصلی اللہ علیہ وسلم مسلمان سب کٹ مریں غم نہیں ہے نہ جائے مگر آبروئے محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہو مسکن مرایا الٰہی ! مدینہ ہو مدفن مرا خاکِ کوئے محمدصلی اللہ علیہ وسلم خدا کی قسم شک نہیں اس میں عاجزؔ رہِ خلد ہے رہِ کوئے محمدصلی اللہ علیہ وسلم