کتاب: محدث شمارہ 34 - صفحہ 29
مستقبل خوب سوچ سکتا ہے اور ایسے خطرناک اور ظالمانہ فعل سے پہلے اسے سو بار سوچنا پڑے گا۔ دوسرے ورثاء معانی کا اختیار استعمال کر کے قتل در قتل کے انتقامی سلسلہ سے معاشرے کو بچا سکتے ہیں اور خود بچ سکتے ہیں۔ قانون کی اصل غرض و غایت جو قیام امن ہے معاشرے کو صرف اسی ایک صورت میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ آدمیّت احترام آدمی اسلامی قانون اور اسلام۔ مقنن کی سب سے بڑی امتیازی شان یہ ہے کہ اس نے انسانی جان کے احترام کا وہ معیار قائم کیا ہے۔ جس کی مثال دنیا کے کسی قانون میں نہیں ملتی اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ..... بنیادی قانون کا اعلان کر کے ’’خوں شاہ رنگین تراز معمار نیست‘‘ کا یقین دلایا اور پھر فرمایا کہ ایک قتل ناحق ساری دنیا کو قتل کر دینے کے برابر ہے۔ ﴿مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِیْ الْاَرْضِ فَکَاَ نَّمَا قَتَلَ النَّاس جَمِیْعًا ﴾ جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوائے کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا۔ مومن کو ہتھیار سے اشارہ کرنا بھی انسان کو جہنمی بنا دیتا ہے۔ ایک مرتبہ آپ نے کعبہ کو مخاطب کر کے مجمع عام میں فرمایا: ما اطیبک والطیب ریحک. ما اعظمك واعظم حرمتك والذي نفس محمد بيده لحرمة المؤمن اعظم عند اللّٰه حرمة منك ماله ودمه وان يظن به خيراً (بخاری) تو کیسا سرسبز و شاداب اور تیری خوشبو کیسی خوش ہے۔ تو کیسا عظیم ہے اور تیری امت کس قدر بلند ہے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمدصلی اللہ علیہ وسلمکی جان ہے۔ یقیناً مومن کی حرمت اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے بڑھ کر عظیم ہے اسی طرح اس کا مال اور اس کا خون۔ ضروری ہے کہ نیک ظن رکھا جائے۔ آپ کے اس ارشاد نے انسانی جان کے اتلاف کا وہ خاص چور دروازہ بھی ہمیشہ کے لئے قطعاً بند کر دیا جو عقیدت کے پردوں کے پیچھے انسانی زندگی کے ہر نیک و بد دور میں برابر کھلا رہا ہے۔ اور لوگ اپنے اپنے زعم کے مطابق مقدس مقامات پر دشمن تو رہے ایک طرف اپنے فرزندوں تک کو ذبح کرتے رہے ہیں اور لعنت و نفریں کے بجائے اس درندگی پر تحسین و آفرین کے مستحق ٹھہرتے رہے ہیں۔ دنیا کے ہر قانون میں قانون کے تحت انتظامیہ کے کارکن کسی قتل کے الزام میں ایک شخص کو گرفتار