کتاب: محدث شمارہ 34 - صفحہ 28
کا احترام موجود ہونے سے ہے، تو اس لحاظ سے نہ اس قانون کی مثال دنیا میں ملے گی، اور نہ ایسے مقنّن کی۔ ایک مرد اور ایک عورت دو مجرم آپ کے سامنے ہیں۔ یہ مجرم اپنے انجام سے ناواقف قطعاً نہ تھے۔ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلمکے سامنے ان کا صرف اقرارِ جرم نہیں۔ ہر ایک کا اصرار ہے کہ ’’اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلممجھے پاک کیجئے۔‘‘ کیا یہ اصرار اس مقدّس جذبہ اور اس قوّت محرکہ کے وجود کی زندہ شہادت نہیں۔ جس جذبے اور قوت کی حفاظت میں مجرم بطیبِ خاطر جان دے دینا ضروری سمجھتا ہے لیکن قانون کے احترام میں سرِ مو فرق آنا پسند نہیں کرتا۔ مقننصلی اللہ علیہ وسلم(شارع) رحم و عفو کے سارے جذبات کے باوجود حد جاری کرتا ہے اور مجرم اس شان سے قبول کرتے ہیں۔
ایک مرتبہ پھر یاد کر لیجئے کہ کوئی اچھے سے اچھا قانون اس وقت تک مفید نہیں ہو سکتا جب تک اس کا احترام نہ ہو۔ کیا دنیا میں کسی قانون کے احترام کی ایسی مثال موجود ہے؟ اور کوئی ایسا مقنّن تاریخ انسانی میں نظر آتا ہے؟
اس قانون کی غرض اور اس مقنّنِ اعظم رضی اللہ عنہ کا مقصد صرف قیام امن ہے۔ اس سلسلہ میں صرف ایک گزارش کافی ہو گی۔
عدلیہ حقوق و فرائض کا فیصلہ کرتی ہے۔ قانون کے اس شعبہ کا تعلق معاشرے کے ساتھ بالواسطہ ہے۔ البتہ انتظامیہ کا تعلق انسانی معاشرے کے امن و امان سے بلا واسطہ اور قریب تر ہوتا ہے۔ ضابطہ فوجداری کی آخری دفعہ اور جرائم میں سب سے بڑا جرم قتل ہے۔ جس میں انتقام در انتقام کا سلسلہ تمام معاشرے کو ایک سرے سے دوسرے سرے تک آگ لگا دے سکتا ہے اور لا دیتا ہے۔ دنیا کے ہر قانوننے اس جرم کی سزا موت رکھی ہوئی ہے۔ ہمارے مروجہ قانون میں فوجداری جرائم میں نہایت کم درجہ جرائم سے اوپر کوئی جرم بھی قابلِ راضی نامہ نہیں۔ فوجداری میں مدعی حکومت ہوتی ہے فوجداری عدالتیں فریقین میں راضی نامہ کرانے کی مجاز نہیں۔ سوائے اس کے کوئی صورت نہیں ہوتی کہ فریقین آپس میں راضی ہو کر غلط بیانات دیں شہادت تبدیل کریں اور عدالت کو مجرم کی بریّت کے لئے گنجائش پیدا ہو جائے۔ لیکن اسلام نے فوجداری کے آخری جرم قتل میں بھی راضی نام کی گنجائش رکھی ہوئی ہے۔ مقتول کے ورثاء کو اختیار ہے کہ قصاص میں دیّت وصول کریں یا معاف کر دیں۔
﴿فَمَنْ عُفِیَ مِنْ اَخِیْهِ شيءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوْفٍ ﴾
اگر کسی قاتل کے ساتھ اس کا بھائی کچھ نرمی کرنے کے لئے تیار ہو تو معروف طریقے کے مطابق عمل ہونا چاہئے۔
مجرم کو مقتول کے ورثاء کے سپرد کر دینے میں ایک طرف یہ فائدہ ہے کہ ارادۂ قتل کرنے والا مجرم اپنا