کتاب: محدث شمارہ 34 - صفحہ 26
سارے دھوکے مغالطے نکل جائیں گے۔ اس عقیدے کو واضح کرنے میں رسول مقبولصلی اللہ علیہ وسلمکے طرزِ عمل کا ایک واقعہ کافی ہے۔
ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ آپ نے اپنے حجرہ کے دروازہ کے قریب لوگوں کو جھگڑتے سنا تو آپصلی اللہ علیہ وسلمباہر تشریف لے آئے اور فرمایا۔
انما انا بشر وانه ياتيني الخصم فلعل بعضهم ألحن بحجته من بعض فأحسبه انه صادق فقضيته بحق مسلم فانما ھي قطعة من النار فليحملھا او يذرھا
میرے پاس مقدمہ آتا ہے۔ مدعی اپنی چرب زبانی سے دعویٰ ثابت کر دیتا ہے حالانکہ حق دوسری جانب ہوتا ہے، میں اس بیان کے مطابق اس کے حق میں فیصلہ نافذ کرتا ہوں۔ مگر وہ یہ سمجھ لے کہ ایک مسلمان کا مال ناجائز طریقہ سے لینا آگ کو لینا ہے۔ اب وہ آزاد ہے اسے قبول کرے یا چھوڑ دے۔
روزِ جزاء کی جواب دہی کا ذمہ دارانہ تصوّر اس سے زیادہ کیا دلایا جا سکتا تھا کہ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلمنے اس دن کے فیصلے کے سامنے اپنے فیصلے کو بھی بے حقیقت قرار دے دیا۔ یہ واقعہ ایک طرف آپ کی بے نفسی کی انتہا ہے اور دوسری طرف قانون الٰہی کی پابندی کا وہ ہمہ گیر اثر پیدا کرتا ہے جس سے زیادہ اثر پیدا کرنا ممکن نہیں۔ قرآن مجید کے الفاظ میں سنیئے:
﴿ قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِنَ الرُّسُلِ وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ﴾
میں انوکھا رسول نہیں ہوں میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا ہو گا اور تمہارے ساتھ کیا۔
آپصلی اللہ علیہ وسلمکے اس طرزِ عمل نے اسلام قبول کرنے والوں کے ضمیر کو اس حد تک بیدار کر دیا اور آخرت کے عقیدے نے یہ بیداری اس مقام تک پہنچا دی کہ لوگ قانون کی پابندی ہی میں دنیوی اور اُخروی راحت یقین کرنے لگے۔ ہر مرد و عورت نے اس پابندی ہی کو ذریعۂ نجات یقین کر لیا۔ اور یہ یقین معاشری اور معاشی زندگی کے اطمینان اور امن کا مستقل سرمایہ بن گیا۔ اس سلسلہ میں ذیل کے دو واقعات بطور شہادت کافی ہوں گے۔
بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا۔ ماعز بن مالک نبیصلی اللہ علیہ وسلمکی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلممجھے پاک کر دیجئے؟ آپ نے فرمایا: ’’تیرا برا ہو لوٹ جا اور اللہ کے حضور توبہ و استغفار کر لے!‘‘ راوی کہتا ہے وہ تھوڑی دور تک واپس گئے پھر لوٹ آئے اور پھر یہی کہا کہ ’’اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلممجھے پاک کر دیجئے! نبیصلی اللہ علیہ وسلمنے پھر وہی جواب دیا۔ تین بار