کتاب: محدث شمارہ 34 - صفحہ 25
مقرر کئے سب سے اونچے طبقہ برہمن کو قدم قدم پر تحفظات اور مراعات سے نوازا۔ افلاطون کے فلسفہ تک دیکھ جاؤ طبقاتی امتیازات قدم قدم پر نظر آئیں گے۔ رسول مقبولصلی اللہ علیہ وسلمنے اپنے پیش کردہ قانون کے اجرا و نفاذ میں جو طریقِ عمل اختیار فرمایا وہ یہ ہے کہ قانون کے سامنے ہر چھوٹا بڑا یکساں تھا۔ یہاں تک کہ خود اپنی ذات بھی مستثنےٰ نہ تھی۔ بلکہ انا اول المسلمین کہہ کر آپ نے اپنے آپ کو سب سے پہلا قانون کا پابند عملاً ثابت کر دیا۔ اور قانون کے احترام کی بے نظیر مثال قائم کر دی۔ قبیلہ مخزوم کی ایک عورت چوری کے جرم میں گرفتار ہوتی ہے، حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ بن زید رضی اللہ عنہ جن سے آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلمنہایت محبت رکھتے تھے، لوگوں نے ان کو سفارشی بنا کر خدمتِ نبویصلی اللہ علیہ وسلممیں بھیجا۔ آپ نے فرمایا اسامہ رضی اللہ عنہ! کیا تم حدودِ خداوندی میں سفارش کرتے ہو۔ پھر آپ نے لوگوں کو جمع کر کے خطاب فرمایا ’’تم سے پہلی امتیں اسی لئے تباہ و برباد ہو گئیں کہ جب معزز آدمی کوئی جرم کرتا تو تسامح کرتے اور معمولی آدمی مجرم ہوتے تو سزا پاتے۔ خدا کی قسم اگر محمدصلی اللہ علیہ وسلمکی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا چوری کرتی تو اس کے بھی ہاتھ کاٹے جاتے۔‘‘ مرض الموت میں آپصلی اللہ علیہ وسلمنے مجمع عام میں اعلان فرمایا کہ میر ذمہ اگر کسی شخص کا کچھ قرضہ آتا ہو یا کسی جان و مال و آبرو کو کوئی صدمہ پہنچا ہو تو میری جان و مال و آبرو حاضر ہے۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہم نے کہا کہ جنگِ بدر کے موقع پر صفیں سیدھی کراتے ہوئے آپصلی اللہ علیہ وسلمنے مجھے تیر کی لکڑی سے چوکا دیا تھا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا بدلہ لے سکتے ہو! اس رضی اللہ عنہ نے کہا اس وقت میرا بدن ننگا تھا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلمنے کُرتہ اتار دیا لیکن صحابی رضی اللہ عنہ مہرِ نبوت کو بوسہ دے کر عذر خواہ ہوا اور پیچھے ہٹ گیا۔ اسی فطری تعلیم اور عملی تربیت کا نتیجہ تھا کہ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلمکے جانشین جو اس نظامِ حکومت میں قوم کے سربراہ بنتے رہے اپنی ما تحت عدالتوں اور اپنے مقرر کئے ہوئے ججوں کے سامنے مدعا علیہ کی حیثیت سے اپنے مدعیوں اور مستغیثوں کے برابر مجرموں کے کٹہروں میں کھڑے ہوتے رہے۔ تاریخ کے صفحات اس قسم کے واقعات سے پُر ہیں۔ قانون بھی خالقِ کائنات کا بنایا ہوا اور اس کے اجرا و نفاذ کا یہ امتیازی طرزِ عمل، اس کا لازمی نتیجہ تھا کہ اسی دور میں دنیا نے وہ امن و اطمینان حاصل کیا، جس کی نظیر انسانی تاریخ میں کسی دوسری جگہ نہیں ملتی۔ ۳۔ تیسری امتیازی خوبی اس قانون اور مقنّن میں یہ ہے کہ اس نے ایک معیّن روزِ جزا کا عقیدہ دیا جس دن تمام پوشیدہ سے پوشیدہ جرائم کھُل کر سامنے آجائیں گے اور دنیا میں ایک دوسرے کو دیئے ہوئے