کتاب: محدث شمارہ 34 - صفحہ 24
نہ رہ جائے۔ خلاص حافظ ازاں زلفِ تابدار مباد کہ بستگانِ کمندِ تورستگار انہند دیگر بے شمار ایسے فطری محرکات میں سے جو رسول مقبولصلی اللہ علیہ وسلمکے پیش کردہ قانون کی پابندی از خود قبول کرنے کے لئے انسان کو آمادہ کرتے ہیں ایک یہ مذکورہ عقیدہ ہے کہ یہ خالقِ کائنات کا قانون ہے اسے قبول کرنے میں کسی ننگ و عار کا شائبہ تک نہیں بلکہ اس کی پابندی وہ پابندی ہے جو ہر غلامی سے آزاد کر دیتی ہے۔ یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات (۲) دوسری امتیازی خوبی اس میں یہ ہے کہ دنیا کے تمام نئے اور پانے قوانین کے مقابلہ میں اس قانون کا پیش کرنے والا ( صلی اللہ علیہ وسلم ) خود بھی اپنے پیش کردہ قانون کا بالکل اسی طرح پابند ہے جس طرح ایک عام شہری۔ بلکہ پہلا پابند خود ہے اور بعد میں یہ پابندی کسی دوسرے تک پہنچتی ہے۔ ﴿اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَبِّه وَالْمُؤْمِنُوْنَ كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَمَلٰئِكَتِه وَكُتُبِه وَرُسُلِه﴾ (بقره۔۱۴۰) رسول اس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے اور جو لوگ اس رسول کو ماننے والے ہیں انہوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کر لیا ہے یہ سب اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں۔ اسلامی آئین اور عوامی تحریک عوام کے لئے اس قانون کو قبول کرنے میں یہ صورتِ حال ایک ایسی فطری تحریک اور بوئے جنسیت کی ایسی نفسیاتی تسکین کا سامان بن جاتی ہے کہ ہر خاص و عام اس خوشگوار پابندی کے لئے مجبور نہیں بے تاب ہوجاتا ہے۔ بائیبل کے مطالعہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ لاوی خاندان (نسلِ ہارون علیہ السلام ) کو کس قدر قانونی تحفظات حاصل تھے بلکہ بے شمار مراعات ملی ہوئی تھیں جن میں عوام کا کوئی حصہ نہ تھا۔ سو ختنی قربانی صرف اسی خاندان کا حق تھا۔ دنیا کا سب سے بڑا اور پرانا مقنن ’’منو‘‘ جس نے ہندو جاتی کے لئے سمرتی ترتیب دی۔ اسے پڑھ کر دیکھئے کہ اس نے پہلے نسل آدم کو چار ورتوں (طبقوں) برہمن، کشتری، دیش اور شودر پر تقسیم کرکے ایک نہ ختم ہونے والی بے انصافی کی پائیدار بنیاد رکھ دی اور ہر طبقہ کے علیحدہ علیحدہ حقوق و فرائض