کتاب: محدث شمارہ 34 - صفحہ 23
اِذْ اَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ﴾ (آل عمران)
﴿لَنْ یَّسْتَنْکِفَ الْمَسِیْحُ اَنْ يَّكُوْنَ عَبْدًا لِلّٰهِ وَلَا الْمَلٰئِكَةُ الْمُقَرَّبُوْنَ﴾ (نساء: ۴۴)
مسیح اس بات کو عار نہیں سمجھے گا کہ وہ اللہ کا ایک بندہ ہو اور نہ مقرب ترین فرشتے اس کو عار سمجھتے ہیں۔
اس مقدس دعوت میں یہ نفسیاتی تحریک بنیادی حیثیت سے شامل ہے کہ وہ انسان جو اپنے ہم جنسوں کی غلامی میں زندگی بسر کرنا قطعاً پسند نہیں کرتا اسے خدا کے ترتیب دیئے ہوئے ایک ایسے قانون کی سرپرستی کا آرام دہ سایہ نصیب ہو گیا جو لم یلد ولم یولد کا بتایا ہوا ہے جس میں کسی کی طرفداری کا شائبہ تک نہیں۔ قانون بنانے والے سے اپنی رعایا کی زندگی کا کوئی گوشہ پوشیدہ نہیں، کوئی تقاضا نظر سے اوجھل نہیں کسی تقاضے کا پورا کرنا اسے مشکل نہیں۔
قانونی پابندی کی مشکل کا حل
قانون کوئی بھی ہو، آخر پابندی کا تقاضا کرتا ہے اور پابندی بہرحال ایک ناگوار حقیقت ہے۔ لیکن خدا کی بارگاہ وہ بارگاہ یا پناہ گاہ ہے جہاں اللہ کے بندوں نے یہی التجا پیش کی ہے کہ تیری بے نیاز مشفقانہ تادیب میں بھی ہماری بھلائی ہی بھلائی ہے بار الٰہا! ہم کو اپنے ہم جنسوں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑ!
مسلّط مکن چومُغے برسرم زدستِ توبہ گر عقوبت برم
بہ گیتی نہ باشد بتر زیں بدے جفا بردن از دستِ ہم چوں خودے
علامہ اقبال مرحوم فرماتے ہیں:
آدم از بے خرد مے بندگیٔ آدم کرو گو ہرے داشت دے نذر قباد و جم کرو
یعنی از خوے غلامی زسگاں خوار تر است من ندیدم کر سگے پیش سگے سرخم کرد
اس کے مقابلہ میں خدا کی وہ بندگی اور خدا کے قانون کی وہ پابندی جو اس کا بندہ رضا کارانہ قبول کرتا ہے اور جس پابندی میں قبول و اذعان کی فطری کشش موجود ہوتی ہے وہ دل تنگی کا سامان نہیں ہوتی بلکہ عین راحت ہوتی ہے اور سکون و اطمینان کا سامان بن جاتی ہے یہاں تک کہ اس کا گرفتار گرفتاری پر نہیں آزاری میں ضائع کئے ہوئے وقت پر پچھتاتا ہے۔
نالہ از بہر رہائی نکند مرغِ اسیر
خورد افسوسِ زمانے کہ گرفتار نہ بود
مسلماں کی آزادی کے معنی یہی ہیں کہ اسے اس پابندی سے روکنے والی کوئی قوت راہ میں حائل