کتاب: محدث شمارہ 34 - صفحہ 22
پھراس قانون کو پیش کرنے والا بھی اسی قدر زیادہ محسنِ انسانیت اور زیادہ سے زیادہ تحسینآفرین کا مستحق ٹھہرے گا۔
محسنِ عالم حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلمکی مقدس شخصیت کو ایک مقنّن کی حیثیت سے دیکھنے کے لئے آپ کے پیش کردہ قانون اور قانون کے نتائج کو دیکھنا بالعموم ضروری ہے اور بالخصوص ان گہری بنیادوں پر بھی غور کرنا ضروری ہو گا جو ان مشہور اور عام فہم نتائج اور تاریخی حقائق کے نہایت لطیف، دُوررس فطری وجوہ و اسالیب اور محرکات ہیں جن وجوہ و اسالیب اور محرکات نے اس قانون کو قابلِ عمل، سہل القبول اور مقبول عام بنایا۔ کیوں کہ کوئی قانون بہتر سے بہتر کیوں نہ ہو جب تک اُس پر عمل نہ ہو بے کار محض ہوتا ہے۔ اور اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ اسلامی قانون کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ یہ رواج و نفاذ کی خود ایک زندہ قوّت اور تحریک ہے۔
جہاں تک قانون کی تربیت کا تعلق ہے یہ قانون خالقِ کائنات کا بنایا ہوا ہے۔ مخلوق کے کسی فرد کا اس میں دخل نہیں۔ خلیفۃ اللہ حضرت آدم علیہ السلام سے چل کر آج تک ہر پیغمبر نے یہی وضاحت کی ہے۔ خدا ہی کی حاکمیت کو منوایا ہے اور خدا ہی کا قانون پیش کیا ہے۔
﴿وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ﴾ (سورہ نساء رکوع ۹)
’’ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اسی لئے بھیجا ہے کہ اذنِ خداوندی کی بنا پر اس کی اطاعت کی جائے۔
انبیائے کرام علیہم السلام کی دعوت اور دنیا کے سیاسی حکمرانوں کی حکومت میں یہی سب سے بڑا مایہ الامتیاز ہے کہ جہاں سیاسی حکمرانوں نے عوام کو اپنے زیر فرمان رکھنے اور انہیں اپنی غلامی کا طوق پہنانے کی کوشش کی ہے وہاں انبیاء علیہ السلامکی مقدس جماعت نے عوام کو اپنے ہم جنس بندوں کی غلامی سے نجات دے کر خدا کا بندہ بنانے کی مہم چلائی ہے جس کی بندگی اور غلامی سے کسی کو عار و استنکار نہیں ہو سکتا۔
﴿مَاکَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّؤْتِیَهُ اللّٰہُ الْکِتٰبَ وَالْحُکْمَ وَالنَّبُوَّۃَ ثُمَّ يَقُوْلَ لِلْنَّاسِ كُوْنُوْا عِبَادًا لِّيْ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلٰكِنْ كُوْنُوْا ربّٰنِيّنَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْكِتٰبَ وَبِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ. وَلَا يَأْمُرَكُمْ اَنْ تَتَّخِذُوْا الْمَلٰئِكَةَ وَالنَّبِينَ اَرْبَابًاط اَيَأْمُرُكُمْ بِالْكُفْرِ بَعْدَ ﴾
کسی انسان کا یہ کام نہیں کہ اللہ تو اس کو کتاب اور کم اور نبوت عطا فرمائے اور وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کے بجائے تم میرے بندے بن جاؤ۔ وہ تو یہی کہے گا کہ سچے اللہ والے بنو جیسا کہ اس کتاب کی تعلیم کا تقاضا ہے جسے تم پڑھتے اور پڑھاتے ہو۔ وہ تم سے ہرگز یہ نہ کہے گا کہ فرشتوں یا پیغمبروں کو اپنا رب بنا لو کیا ممکن ہے کہ ایک نبی تمہیں کفر کا حکم دے جب کہ تم مسلم ہو۔