کتاب: محدث شمارہ 34 - صفحہ 18
﴿ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا﴾[1] پھر یہ ’کتابِ ہدایت‘ روز اوّل سے محفوظ و مصئون ہے۔ اس میں آج تک کسی ایک نقطے اور کسی ایک شوشے تک کی تحریف نہیں ہوئی اور نہ ہی کبھی ہو سکتی ہے۔ اس کی حفاظت و صیانت کا ذمہ خود پروردگار عالم نے لے رکھا ہے۔﴿ اِنَّا َحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَه لَحَافِظُوْنَ﴾[2]اسسے بڑھ کر یہ کہ اس ’نسخۂ کیمیا‘ کو دنیا کے سامنے لانے والی شخصیت ایک اُمی کی شخصیت تھی جس نے کسی سے لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا تھا۔ جس نے کسی کے آگے زانوئے تلمذ تہہ نہیں کیا تھا، اس نے سب کے سامنے علم و حکمت اور موعظت و معرفت کا وہ عظیم الشان دفتر پیش کر دیا جس نے دل و دماغ بدل ڈال، ذہنیتیں بدل ڈالیں، رواج بدل ڈالے، رسوم بدل ڈالیں، افراد بدل ڈالے، اقوام بدل ڈالیں، تمدّن بدل ڈالے اور تہذیبیں بدل ڈالیں، جس نے عرب کے ریگستانوں میں رہنے والے خانہ بدوش شتر بانوں کو اصولِ جہانبانی سکھائے اور وقت کے قیصر و کسریٰ کے تخت پر بٹھا دیا۔ جس نے درماندگانِ عقل و خرد کو کائنات کے ذرّے ذرّے کی حقیقت سے آشنا کر دیا۔ شقِّ قمر کار مکہ نے ایک بار رات کے وقت مقامِ منیٰ میں حضورصلی اللہ علیہ وسلمسے معجزہ طلب کیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلمنے انگلی کے اشارے سے چاند کو دو ٹکڑے کر دکھایا۔ ایک ٹکڑا کوہِ حرا کے اس طرف نظر آیا اور دوسرا اُس طرف ۔ [3]یہ دیکھ کر کفارِ مکہ نے کہا کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلمنے ہم پر جادو کر دیا ہے۔ بعض کہنے لگے کہ اگر ہم پر جادو کر دیا ہے تو تم دنیا پر تو وہ جادو نہیں کر سکتے۔ چنانچہ دیگر مقامات سے آئے ہوئے مسافروں سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے بھی یہی مشاہدہ بیان کر دیا ۔ [4] ستون کا رونا مسجد نبوی میں منبر تیار ہونے سے قبل حضورصلی اللہ علیہ وسلممسجد میں کھجور کے تنے کے ایک ستون سے ٹیک لگا کر خطبہ دیا کرتے تھے۔ جب منبر تیار ہوا تو آپصلی اللہ علیہ وسلمنے منبر پر کھڑے ہو کر جمعہ کا خطبہ دینا شروع کیا تو اچانک اس ستون سے زار و قطار رونے کی آواز آئی۔ تمام حاضرین مسجد نے اس کے رونے کی آواز سنی۔ آپصلی اللہ علیہ وسلممنبر سے اتر کر اس ستون کے پاس گئے اور سینے سے لگا کر
[1] لیکن اگر تم ایسا نہ کرسکو اروتم ہرگز نہی کر سکو گے ۔(البقرہ :۲۴) [2] بیشک یہ (کتاب)نصیحت ہے جو ہم نےاتاری ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔(الحجر: ۹) [3] البخاری ومسلم عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ [4] مسند ابی داؤد للطیالسی و البیہقی عن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہعنہ