کتاب: محدث شمارہ 34 - صفحہ 16
یعنی ’نبی کی آواز اور چہرہ ہر جاننے والے دل کے لئے معجزہ ہوتا ہے۔‘‘ مولانا روم رحمہ اللہ حضرت ہارون علیہ السلاماور حضرت یوشع علیہ السلامکا موسیٰ علیہ السلام کو پیغمبر مان لینا کسی معجزے کا رہین منت نہیں تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلامکے حواریوں نے ’اعجازِ مسیحائی‘ کے مشاہدے کے بعد آسمانی دولت سے بہرہ حاصل نہیں کیا تھا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ عنہ ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، عبد الرحمٰن رضی اللہ عنہ بن عوف اور ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے فرشتوں کو آسمان سے اترتے ہوئے دیکھ کر یا چاند کے دوٹکڑے ہونے کا نظارہ کر کے ایمان قبول نہیں کیا تھا۔ لیکن دنیا میں کوتاہ فہموں اور ظواہر پرستوں کا ایک بہت بڑا گروہ ایسا بھی بستا ہے جسے مشاہدۂ معجزات کے بغیر اطمینان نصیب نہیں ہوتا۔ اس گروہ کے لوگوں کے غنچہ ہائے دل کے کھلنے کے لئے کسی معجزے کی بادِ صبا کا خرام ضروری ہوتا ہے تاکہ اس سے یہ غنچے کھل کر یوں گویا ہوں کہ اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ، رَبِّ مُوْسٰی وھَارُوْنَ [1] یا پھر ایسے لوگ جب کبھی دائرۂِ اسلام میں داخل ہوں اور کوئی معرکۂ حق و باطل برپا ہو تو فرشتوں کی قطار اندر قطار فوجوں کی نصرت و تائید سے ان کے مضطرب دلوں کو دولتِ سکون و اطمینان سے مالا مال کر دیا جائے۔ بایں ہمہ ایک گروہ ایسا بھی ہوتا ہے جو اگرچہ طلبِ معجزات میں سب سے آگے ہوتا ہے لیکن اس گروہ کے نمرود اور ابو جہل اپنے کفر و جحود کی وجہ سے آگ کو گلستان ہوتے دیکھ لینے کے باوجود اور چاند کے دو ٹکڑے ہوتے دیکھنے کے باوصف، نعمت ایمان سے محروم ہی رہتے ہیں ایسے لوگوں کے لئے قرآنِ حکیم کا ارشاد یہ ہے وَمَا تُغْنِیْ الْاٰیٰاتُ وَالنُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لَا یُؤمِنُوْنَ[2] متکلمین کی اصطلاح میں معجزے کی تعریف یہ ہے کہ ’کسی نبی سے کسی ایسے واقعے کا ظہور ہونا جو عام حالات میں انسانی دسترس سے باہر ہو اور جس کی توجیہہ سے عقلِ انسانی عاجز ہو۔‘‘ محدّثین نے اس کے لئے ’علامت‘ اور ’ذلیل‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں اور قرآن نے اسے ’آیت‘ اور ’برہان‘ سے تعبیر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو خالق اور حاکم تسلیم کر لینے کے بعد معجزے کی حیثیت قانونِ فطرت کے ایک خارق کی نہیں رہتی بلکہ قانونِ فطرت کے عین مطابق ہو جات ہے کیونکہ جو ارادۂ الٰہی فطرت کے سلسلۂ اسباب و علل کا خالق ہے وہی اس کے عمل سے مانع ہو جاتا ہے۔ اس طرح
[1] ہم پروردگارعالم پر ایمان لائے ، جو موسیٰ علیہ السلام اورہارون علیہ السلام کارب ہے ۔ ( الشعراء : ۴۷، ۴۸ [2] کفر کاراستہ اختیار کرنے والوں کے لیے اللہ کی نشانیاں اور تنبیہات بےسود ہیں (یونس ۱۰۱)