کتاب: محدث شمارہ 34 - صفحہ 15
ابو القاسم محمد رفیق جذؔبی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلماور معجزات اللہ تعالیٰ اپنے انبیائے کرام کو نوعِ انسانی کی ہدایت و رہنمائی کے لئے مختلف زمانوں کے اندر اور مختلف قوموں کے درمیان مبعوث فرماتا ہے۔ اور ان کی نبوت کی حقانیت پر بہت سی باطنی اور ظاہری شہادتیں فراہم کر دیا ہے تاکہ حقیقت شناس انسان ان کی باطنی شہادتوں کا مشاہدہ کر کے ان کو برحق تسلیم کر لیں اور سطح بین لوگ ان کی ظاہری دلیلوں کو دیکھ کر اُن پر ایمان لے آئیں اور جو کج فہم ہوں ان پر حجت تمام کر دی جائے۔ چنانچہ انبیاء علیہم السلام کی صاقت و عصمت، امانت و دیانت، ارشاد و دعوت، تعلیم و ہدایت اور تزکیۂ حکمت ہی اُن کی باطنی نشانیاں اور علامتیں ہوتی ہیں جنہیں اہلِ بصیرت کی نظریں دیکھ لیتی ہیں اور ان کی نبوت پر گواہی دے دیتی ہیں۔ فی الحقیقت انبیاء کا سرتاپا وجود ہی ان کی نبوّت کی اصل شہادت ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی دعوت پر سب سے پہلے لبیک کہنے والوں نے کبھی ان سے ظاہری نشانیوں، معجزات کا مطالبہ نہیں کیا ہے۔ السابقون الاوّلون کے ایمان نے کسی معجزے کی طلب سے اپنا دامن داغدار نہیں کیا۔ ان کی دیکھنے والی آنکھ کے لئے نبی کا سراپا وجود، ان کے سننے والے کان کے لئے اس کی آواز، اور ان کے سمجھنے والے دل کے لئے اس کا پیغام ہی اپنے اندر وہ اعجاز رکھا تھا کہ اُن کی گردنیں بے اختیار اس کے آگے جھک جاتی ہیں۔ ؎ در دل ہر کس کہ دانش رامزہ است روئے و آوازِ پیمبر معجزہ است