کتاب: محدث شمارہ 34 - صفحہ 12
تہذیبی و تمدنی انقلاب تھا جس کی مثال تاریخ عالم میں ملنا ممکن نہیں۔ آپ کا دیا ہوا ضابطۂ حیات انسانی فطرت کے اس قدر مناسب ثابت ہوا کہ اس کی برکت سے انتشار و افتراق اور طوائف الملوکی اپنی موت آپ مر گئی۔ آپ کی سیاسی بصیرت نے ایک چھوٹی سی مدنی سلطنت کو اتنا وسیع کریا اور پھر اس میں اتنا استحکام پیدا کر دیا کہ روم و ایران کی متمدن اور مضبوط ترین قومیں اسے خراج دینے پر مجبور ہو گئیں۔ ابھی ایک صدی بھی نہ گزری تھی کہ خلیفہ ولید بن عبد الملک کے عہد میں اسلامی سلطنت مغرب میں سرحدِ فرانس سے نکل کر خلیج بسکے تک پھیل گئی اور مشرق میں اس کی حدود ماوراء النہر سے آگے سرحد چین تک، سارا وسطی ایشیا اور شمالی افریقہ ایک خلیفہ کے زیرِ انتظام و زیرِ انصرام آگیا۔ تاریخ انسانیت میں ایسی بے مثال و وسیع و عریض مملکت برطانیہ کو اپنے عروجِ اقبال کے اس دور میں بھی میسر نہ ہوئی جبکہ یہ مقولہ زبان زد عام تھا کہ برطانیہ کی سرزمین میں سورج غروب نہیں ہوتا۔
یہ رسالت مآب ہی کی برکت تھی کہ دنیا بھر کی تہذیب و تمدن کی باگ دوڑ مسلمانوں کے ہاتھ میں آگئی۔جس کا اثر اتنا گہرا ہوا کہ عراق، شام، فلسطین، مراکش، مراکو، ٹیونس اور الجزائر کی اپنی مادری زبانیں تک تبدیل ہو کر عربی بن گئیں۔ پوری تاریخ انسانیت ایسی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ دنیا کا کوئی انقلاب اس قدر گہرے نقوش ثبت نہ کر سکا کہ مختلف ممالک کی اپنی مادری زبانیں بھی تبدیل کر کے رکھ دے۔
علوم و فنون:
محمد مصطفےٰصلی اللہ علیہ وسلمنے جس تحریک کی بنیاد رکھی اس کی بنیادیں عقل و شعور پر مبنی تھیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دینی و سائنسی اور نقلی و عقلی علوم پروان چڑھنے لگے۔
جس دور میں پورا یورپ اور عصرِ حاضر کی مہذّب مغربی دنیا سائنسی ترقی علم و فن کے نام تک سے آگاہ نہ تھی اس وقت سپین کے مسلم اطباء علمِ طبّ میں ترقی کی اس انتہا کو پہنچ چکے تھے کہ انسان کا دل باہر نکال کر کامیاب اپریشن کر لیتے۔ اور بعید ترین سیاروں کا فاصلہ اور ان کی رفتار معلوم کر لی تھی اور یہ وہ حقائق ہیں جن کا اعتراف خود مستشرقین نے حیرت و استعجاب کے عالم میں کیا ہے۔ ملاحظہ ہو جارج سارٹن کی تصنیف (سائنسی تاریخ کا ایک تعارف)
ہر قوم کا عروج و زوال اس کے اصولوں پر پختہ یقین اور ان پر کار بند رہنے میں ہوتا ہے۔ اہلِ مغرب کی دنیاوی ترقی کا یہی راز ہے لیکن مسلمان جنہیں اعلیٰ ضابطوں اور ایمان کی بدولت دارین کی فوز و فلاح کا ضامن ٹھہرایا گیا تھا وہ بے یقینی اور بے عملی کی حالت میں ذلیل و خوار ہو گئے۔ آج بھی اس نعمتِ گم گشتہ کو واپس لانے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے دینِ رسالتِ مآبصلی اللہ علیہ وسلمسے تمسک و اعتصام، جس کی بنیاد ’’کاشانۂ ختم الرسل سے محبت و وابستگی اور تعلق و دارفتگی‘‘ پر ہے۔ چنانچہ دشمنانِ اسلام