کتاب: محدث شمارہ 339 - صفحہ 80
بسا اوقات ایسی فاش غلطیاں کرتا ہے جو مبتدیوں سے بھی چھپی نہیں رہ سکتیں … یہ کتاب ایک ناول ہے جس میں صرف چند نام تاریخی اور دو ایک واقعات قابل اعتبار ہیں اور بس اس لحاظ سے وہ الف لیلہ کے قصوں کی مانند ہے جس میں خلیفہ ہارون الرشید ، جعفر برمکی وغیرہ چند نام اور بغداد و موصل وغیرہ چند مقام تاریخی ہیں باقی کتاب محض افسانہ ہے۔اس کے مصنف نے عجیب خوش اعتقادیاں پیدا کر دی ہیں …’توماکے اعمال‘کی کتاب میں اور انجیلی مجموعہ کے ’رسولوں کے اعمال‘کی کتاب میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔’توما کے اعمال‘اس مصنف کے باطل خیالات اور اس کی قوتِ متخیلہ کی مرہون منت ہے… پس لازم ہے کہ ہم اس کو ان معیاروں کی کسوٹی پر پرکھیں جو علم التاریخ نے سچ اور جھوٹ کی پہچان کے لیے مقرر کر رکھے ہیں ۔ بالخصوص جب ہم دیکھتے ہیں کہ کتاب’مقدس توما کے اعمال‘ غلط ناستک تعلیم اور خارقِ عادت فضول قصوں سے بھری پڑی ہے تو گمان اور بھی غالب ہو جاتا ہے کہ یہ کتاب از سر تا پا ایک افسانہ ہے جس میں صداقت کی جھلک بھی نہیں پائی جاتی۔ پچاس سال ہوئے مغرب کے علما اور مؤرخین اس نتیجہ پر متفق تھے کہ تاریخی لحاظ سے اس کتاب کی قیمت صفر سے بھی کم ہے۔‘‘ [مقدس توما رسولِ ہند، ص۲۶ تا۳۶ ،پنجاب ریلیجیئس بک سوسائٹی ، لاہور) 29.مقدس توما، ص۵۶ ، توما ہندو پاک میں ، ص۷۰، اس رسید کی محتویات اور طرزِ تحریر دوسری صدی کی تحریروں سے میل نہیں کھاتے۔ 30.تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو : برکت اللہ ، مقدس توما رسولِ ہند ؛ ایس این والڈ ، مقدس توما 31. توما رسولِ ہند ، ص ۸۱،۸۲ 32.ایضاً ، ص۸۷ 33. ایضاً 34.Thomas P.Christians and Christianity in India and Pakistan, (London 1954), p.17 35.قدیم تاریخ ہندازسمتھ،ونسٹ اے[مترجم:محمد جمیل الرحمن]ص ۳۶۸،دارالطبع جامعہ عثمانیہ ، حیدرآباد دکن۱۹۲۲ئ) 36.American Ethnologist ,(From Tupa to the Land without evil: The Christianization of Tupi Guarani Cormology,(Vol. 14, No.1, p.127-128, 1987) 37.رسولوں کے نقش قدم پر ، ص۳۸ 38.Keay ,F.E., History of Syrian Church in India, SPCK, Madrass 1938), p16