کتاب: محدث شمارہ 339 - صفحہ 8
کرتے رہیں گے تو صورتِ حال کے بگڑنے کے خدشات ہیں ۔ ہمارے دانشور جو قادیانیوں کے مظلوم ہونے کے پراپیگنڈے پر یقین کرتے ہیں ، اُنہیں مرزا غلام احمد کے مذکورہ بالا بیان کے اُسلوب پر ضرور غور کرنا چاہئے۔ ٭ مرزا غلام احمدنے شکایت کی ہے کہ قادیانی مسجد کو مسجدنہیں کہہ سکتے، اُنہیں اذان دینے نہیں دی جاتی۔حتیٰ کہ قرآنِ مجید کی آیات تک لکھنے کی اجازت نہیں ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ دائرئہ اسلام سے خارج ہیں توپھر یہ سب شکایتیں بلا جواز ہیں ۔مساجد اور اذان تو شعائر ِاسلام ہیں ۔یہ مسلمانوں کی ثقافت اور دین کی پہچان ہیں ۔ قادیانیوں کو اپنی عبادت گاہون کو ’مساجد‘ کہنے اور ’اذان‘ دینے کی اجازت نہیں دی جاتی تو اس میں احتجاج کی کیا گنجائش ہے۔ وہ کیوں چاہتے ہیں کہ اپنی عبادت گاہوں کو ’مساجد‘ کہیں اور ان میں مسلمانوں کی طرح ’اذانیں ‘ دیں ۔ وہ ایسا اس لیے چاہتے ہیں تاکہ لوگوں کودھوکے میں مبتلا کرسکیں ۔ وہ پوری دنیا میں اپنے آپ کو مسلمان کہہ کر تبلیغ کرتے ہیں ۔ بہت سے لوگ ان کے ہاتھ پر’اسلام‘ بھی لے آتے ہیں مگر اُنہیں بعد میں پتہ چلتا ہے کہ وہ ’قادیانیت‘ کو اسلام سمجھ کر اس پر ایمان لے آئے ہیں ۔ یہ بہت بڑا دھوکہ ہے جو وہ اسلام کانام استعمال کرکے انسانیت کو دے رہے ہیں ۔ جب قادیانی ملت نے مسلمانوں سے اپنے جنازے تک الگ کرلیے تو اب وہ مسلمانوں کی طرح اذانیں دینے کی ضد کیوں کرتے ہیں ۔ چوہدری ظفر اللہ قادیانی نے محمد علی جناح جیسے معتدل مزاج اور روشن خیال مسلمان کی نمازِ جنازہ بھی نہیں پڑھی تھی۔ جب ان سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو اُنہوں نے جواب دیا: ’’آپ مجھے ایک مسلم ریاست کا غیر مسلم وزیر یا ایک غیر مسلم ریاست کامسلم وزیر سمجھ لیں ۔‘‘ اس طرح قادیانیوں کے خلیفہ دوم مرزا بشیر الدین محمود سے ان کے ایک مرید نے سوال کیا کہ کسی غیر احمدی کااگر کوئی بچہ انتقال کرجائے توکیااس کی نمازِ جنازہ پڑھنا جائز ہے؟ اس کے جواب میں مرزا بشیرالدین محمود نے کہا: ’’میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اگر کسی عیسائی یا ہندو کا بچہ فوت ہوجائے تو کیا اس کی نمازِ جنازہ پڑھیں گے۔’’ اس طرح کی متعدد مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں ۔ جب معروضی حقائق اس طرح کے ہوں تو ’مساجد‘ اور ’اذان‘ جیسے شعائر ِاسلام کو