کتاب: محدث شمارہ 339 - صفحہ 6
اُن کے اس فیصلے کو سراہتے ہیں اور اُنہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔
٭ قادیانی ڈائریکٹر صاحب کہتے ہیں کہ کوئی مانے، نہ مانے، ہمیں مسلمان کہلانے کا حق اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ ہم بھی اپنی رائے کے اظہار کا حق استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کوئی قادیانی مانے یا نہ مانے، وہ مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک کہ ان عقائد اور تعلیمات کو نہ اپنا لے جو کسی کے مسلمان ہونے کے لیے بنیادی شرائط کا درجہ رکھتے ہیں ۔ قادیانیوں کے عقائد قرآن و سنت سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ان کاظلی و بروزی نبوت کانظریہ ایک گورکھ دھندہ ہے اور خود فریبی سے زیادہ کچھ نہیں ۔ اگر وہ واقعی خلوصِ دل سے مسلمان کہلانا چاہتے ہیں تو اُنہیں دین اسلام میں پورا پورا داخل ہونا پڑے گا اور قادیانیت کی عینک اتار کر قرآن و سنت کی تعلیمات کامطالعہ کرنا ہوگا۔ یہ ’خدائی حق‘ کا خود ساختہ تصور اتنا ہی باطل ہے جتنا کہ قرونِ وسطیٰ کی پاپائیت اور بادشاہوں کے ’خدائی حقوق‘ کا تصور۔ یہ محض طفل تسلی ہے اور حقائق سے فرار کی ایک صورت، ورنہ اس طریقہ سے زبردستی کوئی مسلمان ہوسکتا ہے، عیسائی نہ یہودی۔ کسی بھی الہامی مذہب کاپیروکار ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس مذہب کی مکمل تعلیمات پرایمان لایاجائے۔ ابھی چند ماہ پہلے مرزا ناصر احمد کے ایک پوتے قادیانیت سے تائب ہوکر اسلام لے آئے ہیں ۔ دیگر قادیانی بھی اگر’مسلمان‘ کہلانا چاہتے ہیں تو ان کے لیے بھی واحد راستہ یہی ہے۔ خود ساختہ و مزعومہ ’خدائی حقوق‘ کی سرنگ Tunnel سے گزر کر وہ اسلام کے صراطِ مستقیم تک نہیں آسکتے۔
٭ مرزا غلام احمد کے بیان کا وہ حصہ سخت قابل اعتراض ہے جس میں اُنہوں نے کہا:
’’ہم اقلیت نہیں ، مسلمان ہیں ۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہیں اور کسی کی مجال نہیں کہ ہم سے یہ حق چھین سکے۔‘‘
یہ بیان آئین پاکستان سے صریحاً بغاوت ہے۔ آئین پاکستان کی رو سے قادیانی غیر مسلم اقلیت ہیں ۔ اگر آج کوئی قادیانی یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ اقلیتی کمیونٹی کارکن نہیں ، بلکہ اکثریتی جماعت یعنی مسلمانوں کی جماعت میں سے ہے، تو اس کا اعلان غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر اسلامی ہے۔ قادیانیوں کی سوچ اور طرزِ عمل بے حد افسوس ناک ہی نہیں ، اشتعال انگیز بھی