کتاب: محدث شمارہ 339 - صفحہ 54
لکھتے ہیں : ’’یہی مناسب ترین وقت ہے کہ ان دینی،مذہبی مدرسوں کو قومی دھارے میں لایا جائے اور ان کے لیے ایک ایسا نصابِ تعلیم تجویز کیا جائے جس میں اِسلامی تعلیمات اور ہدایات پر زور دینے کے ساتھ ساتھ دیگر مضامین کو بھی شامل کیا جائے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ان دینی اور مذہبی درس گاہوں سے فارغ التحصیل طلبہ نہ صرف اسلامی تعلیمات سے بہرہ مند ہوسکیں گے بلکہ اُنہیں اس دنیا کے بارے میں بھی وسیع معلومات حاصل ہوں گی جس میں ہم سب اپنی اپنی زندگی بسر کررہے ہیں ۔اس طرح کی مخلوط تعلیم کا بہترین نمونہ جاوید احمد غامدی ہیں ۔‘‘ ہردوسرا دانشور یہ پیش پا افتادہ تجویز پیش کرتا ہے، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہمیں خوشی ہوئی کہ اگر یہ دانشور دینی مدارس کا نصاب کبھی غور سے دیکھ لیتے اور پھر اس کے متعلق سفارشات پیش کرتے۔ یہ’دیگر مضامین‘ کیا ہیں جنہیں وہ دینی مدارس کے نصاب میں شامل کرانا چاہتے ہیں ۔ ان کی طرف سے کبھی وضاحت پیش نہیں کی گئی۔ شفقت صاحب کے ذہن میں نجانے وہ کون سی’وسیع معلومات‘ہیں جو ان کے خیال میں دینی مدارس کے طلبا کو جاننا چاہئے۔اُنہیں چاہئے کہ کبھی وہ کسی میڈیکل کالج کادورہ کریں اور ان کے طلباء سے ’حالاتِ حاضرہ‘اور دنیا کے بارے میں ’وسیع معلومات‘ جاننے کی کوشش کریں ،انہیں بخوبی معلوم ہوجائے گا کہ میڈیسن کے علاوہ وہ دیگر معلومات کس حد تک رکھتے ہیں ۔ہم نے تو بارہا یہ مشاہدہ کیا ہے کہ انہیں یہ ’معلومات‘ جاننے کا شوق ہے، نہ ان کے پاس وقت ہے۔ اصل میں یہ ساری سطحی باتیں ہیں ۔نائن الیون کے واقعہ کے ذمہ دار جن ۱۹ عرب نوجوانوں کے نام سامنے آئے تھے، ان میں سے کئی ایک انجینئر اور ڈاکٹر تھے۔ ان میں سے کوئی ایک بھی دینی مدارس سے فارغ التحصیل نہیں تھا۔ وہ دنیا کے بارے میں شاید ایک عام پاکستانی سے بھی زیادہ جانتے تھے۔یہ ہمارے دانشور ہی اس کی تاویل پیش کریں کہ وہ دہشت گردی کی طرف مائل کیوں ہوئے؟ نجانے شفقت محمود صاحب نے یہ کیسے فرض کرلیا کہ جاوید احمدغامدی اُسی ’مخلوط تعلیم‘ کا بہترین نمونہ ہیں ، جس کا نقشہ ان کے ذہن میں ہے۔ہمارے خیال میں انہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔جاوید غامدی صاحب تو گورنمنٹ کالج لاہور کے گریجویٹ ہیں ، وہ کبھی کسی دینی مدرسے میں داخل نہیں ہوئے۔ دین کے بارے میں ان کا مبلغ علم ان کے ذاتی مطالعے اور مولانا امین