کتاب: محدث شمارہ 339 - صفحہ 52
فرض کیجئے کہ دینی مدارس کے موجودہ یاسابقہ طلبا میں سے کچھ نوجوان تشدد اختیار کرتے ہوئے دہشت گردی کو ’جہاد‘ سمجھ بیٹھے ہیں اور اس میں عملی طور پر ملوث ہیں تو کیا ان کے جرائم کی سزا ہزاروں دینی مدارس کو دی جاسکتی ہے اور ان میں تعلیم پانے والے لاکھوں طلبا کو دینی تعلیم کے حق سے یوں محروم کیا جاسکتا ہے؟اگر معاشرے کے دیگر طبقات میں صرف انہی افراد کو سزا کا مستوجب قرار دیا جاتا ہے جو فی الواقع قانون شکنی کرتے ہیں تو آخر دینی طبقے کو اس سہولت سے کیونکر محروم کیا جاسکتا ہے؟کیا یہ لوگ اس ملک کے شہری نہیں ہیں ؟کیا اُنہیں اپنے اوپر عائد کئے جانے والے سنگین الزامات کا دفاع کرنے کا کوئی حق نہیں ہے؟آخر ہمارے’ روشن خیال دانشوروں ‘ نے یہ سب اندھیر نگری دینی طبقے کے لیے ہی روا کیوں رکھی ہوئی ہے؟
یہ ایک حقیقت ہے کہ فرقہ وارانہ دہشت گردی اور حالیہ خود کش دھماکوں کے سٹائل کی دہشت گردی میں ملوث گمراہ نوجوانوں کی کثیر تعداد ایسی ہے جو دینی مدارس میں کبھی زیر تعلیم نہیں رہے۔ حقائق اور اعدادوشمار کے ذریعے اس دعوے کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔ وہ دہشت گردی جیسے گھناؤنے کاروبار کی طرف مائل کیوں ہوئے،اس کے حقیقی محرکات اور اسباب جاننے کی ضرورت ہے۔امریکہ نے نائن الیون کی دہشت گردی کے محرکات کا کھوج لگانے کے لیے کئی کمیشن قائم کئے تھے، ان کی رپورٹیں باقاعدہ شائع ہوکر منظر عام پر آچکی ہیں ۔ ہمارے ہاں بھی اس طرح کے تحقیقاتی کمیشن کے قیام کی ضرورت ہے،اس امر کی طرف سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے سیکولر دانشور ان محرکات کی نشاندہی کرتے رہتے ہیں مگر ان میں معروضیت کی کمی واضح دکھائی دیتی ہے۔ چند دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے دینی مدارس کے پورے نظام کو لپیٹ دینے کی تجویز کسی بھی اعتبار سے معقول نہیں ہے۔
۲۸/ مئی ۲۰۱۰ء کو لاہور میں قادیانی جماعت کی عبادت گاہوں کو جن لوگوں نے نشانہ بنایا، ان میں سے صرف دو زندہ گرفتار کئے جاسکے، باقی خود بھی مارے گئے۔گرفتار ہونے والوں میں سے ایک کا تعلق رحیم یار خان سے بتایا جاتا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق وہ ماضی میں کراچی کے ایک دینی مدرسہ میں پڑھتا رہا ہے۔ اس خبر کے متعلق شک کااظہار کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے، پھر بھی اس سے قطعی طور پر یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ دینی مدرسہ دہشت گردی کی نرسری ہے یا اس دہشت گرد نے اُسی مدرسہ سے تربیت حاصل کی۔ اس طرح کی