کتاب: محدث شمارہ 339 - صفحہ 50
اُنہوں نے پہلے سیاست اور اب صحافت کو اختیار کیاہے۔ بلا شبہ اہل دانش ان کی آرا کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔اُنہوں نے اپنے حالیہ کالم میں دینی مدارس کو ابھی تک بند نہ کرنے پر اپنی حیرت کا اظہار کیا ہے۔ شفقت محمود صاحب فرماتے ہیں :
’’ہم اب بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جب تک ہم دہشت گردو ں کے سیلاب کے اَصل سرچشمے اور منبع کوبندنہیں کریں گے، اس وقت تک ان کے ساتھ یہ جنگ ہمیشہ جاری رہے گی۔ یہ دینی اور مذہبی مدرسے دراصل دہشت گردوں کو تیار کرنے کے ذمہ دار ہیں ، اُنہیں بند کردینا ہی اس مسئلے کا حل ہے۔ ‘‘ (جنگ، ۱۳ /جون ۲۰۱۰ئ)
کچھ اسی طرح کے خیالات کا اِظہار چند دیگر کالم نگاروں نے بھی کیا ہے۔ان تمام میں ایک بات البتہ مشترک ہے کہ یہ سب سیکولر فکر کے حامل ہیں اور مذہب اور ریاست کی تفریق کے قائل ہیں ۔جس طرح مذکورہ دانشور آزادئ اظہار کا حق استعمال کرتے ہوئے اپنی آرا کو پیش کرنے پر اصرار کرتے ہیں ، اس طرح امید ہے کہ وہ یہ حق دوسرے لوگوں کو بھی دیں گے کہ وہ ان کی آرا کے متعلق ریمارکس دے سکیں ۔ ہم نہایت دیانت داری سے سمجھتے ہیں کہ شفقت محمود صاحب نے نہ تو مرض کی صحیح تشخیص کی ہے اور نہ ہی ان کاتجویز کردہ علاج درست ہے۔ ان کی رائے معروضی تجزیے کے زمرے میں نہیں آتی۔ اُن کی رائے سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا کہ دینی مدارس دہشت گردی کا ’سرچشمہ اور منبع‘ ہیں ۔ کسی سچے اور حقیقی دانشور کے شایانِ شان نہیں ہے کہ وہ اس ملک کے ہزاروں دینی مدارس کے بارے میں اس قدر مغالطہ آمیز خیالات کااظہار کرے۔ جب تک کسی الزام کی تصدیق کے لیے ثبوت فراہم نہ کئے جائیں ، وہ ایک الزام اور بہتان ہی رہتا ہے۔اس طرح کی بہتان تراشی کسی بھی اعتبار سے تائید کے قابل نہیں ہے۔
آخریہ کیونکر فرض کرلیا گیا ہے کہ دینی مدارس دہشت گردی کا سرچشمہ ہیں ؟اس بات کی وضاحت ہر اس دانشور اور کالم نگار کی ذمہ داری ہے جو دینی مدارس پر اس طرح کا الزام عائد کرتا ہے۔ان کا اخلاقی فرض ہے کہ اگر ان کے نتائج فکر یہی ہیں تو ان دینی مدارس کی فہرست پیش کریں جو دہشت گردی کا منبع بنے ہوئے ہیں ؟ اگر واقعی کسی بھی دینی مدرسے کے متعلق اس طرح کی شہادت میسر آجاتی ہے، تو پھر اس کی سزا صرف یہی نہیں ہونی چاہئے کہ اُسے بند