کتاب: محدث شمارہ 339 - صفحہ 48
’’اور سیوطی نے اس ( روایت ) پر انکار کیا اور کہا: مجھے اس کی کوئی اصل یا سند نہیں ملی اور نہ میں نے دیکھا کہ حدیث کی کتابوں میں کسی نے اسے روایت کیا ہے، اور اس طرح دوسروں نے بھی اس (روایت) کا انکار کیا لیکن ۔۔۔ ‘‘ ( المواہب اللدنیۃ :۵/ ۴۸۲) ’لیکن‘ والی بات تو بے دلیل ہے اور سیوطی کی کتاب الجامع الصغیرمیں یہ روایت قطعاً موجود نہیں بلکہ عبدالرؤف المناوی نے اسے الجامع الصغیرکی شرح میں ذکر کیا اور کہا: ’’ولم أقف لہ علیٰ أصل‘‘ مجھے اس کی کوئی اصل نہیں ملی۔ (فیض القدیر شرح الجامع الصغیر:۵/ ۹۱ح ۶۴۷۸) مناوی کی اس شرح کے شمائل والے حصے کو حسن بن عبید باحبشی (مجہول)نے الشمائل الشریفۃ کے نام سے دار طائر العلم سے شائع کیا اور اس کی ج۱/ص ۹، رقم ۹ (الشاملہ) پر یہ روایت مناوی کی جرح کے ساتھ موجود ہے۔ محمد بن یوسف صالحی شامی نے کہا: ’’ولا وجود لذٰلک في کتب الحدیث البتۃ‘‘ ( سبل الھدی والرشاد في سیرۃ خیر العباد ۲/ ۷۹، مکتبہ شاملہ) ’’اور اس ( روایت ) کا کتب ِ حدیث میں کوئی وجود نہیں ہے۔‘‘ خلاصہ یہ کہ اس بے سند اوربے اصل (موضوع) روایت کو طاہر القادری نے حدیثِ رسول قرار دے کر عام لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے۔ نوٹ :حال ہی میں دھرابی(چکوال) میں ایک بریلوی نے زمین پر پانچ فٹ سے زیادہ نشان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدمِ مبارک کا نشان قرار دیا تھا، جس کی ’ زیارت‘کے لئے بہت سے لوگ ٹوٹ پڑے تھے مگر بعدمیں وقت ٹی وی والوں نے اس فتنے کی بروقت سرکوبی کر کے لوگوں کے سامنے یہ ظاہر کر دیا کہ یہ حلوہ پکانے کیء لئے استعمال ہونے والے چولہے کا نشان ہے اور یہ ثابت کر دیا کہ یہ سب فراڈ اور دھوکہ تھا۔ ٭ ٭ ٭