کتاب: محدث شمارہ 339 - صفحہ 46
عن جعفر بن محمد بن علی بن الحسن عن یونس بن حبیب عن أبی داود طیالسیکی سند سے روایت کیا ہے۔ (جامع المسانید:۱/ ۷۸۔ ۷۹)
اس الحسن بن علی کے بارے میں امام ابن عساکر نے فرمایا:
’’حدّث عن علي بن بابویہ الأسواري عن أبي داود الطیالسي بخبر کذب والحمل فیہ علیہ أو علیٰ شیخہ فإنما مجھولان‘‘
’’اس نے علی بن بابویہ اسواری عن ابی داود الطیالسی کی سند سے جھوٹی روایت بیان کی جس کا ذمہ دار وہ یا اُس کااستاد ہیں کیونکہ یہ دونوں مجہول ہیں ۔ ‘‘
( لسان المیزان:۲/ ۲۴۰، ۲۴۱ ، نیز دیکھئے :لسان المیزان :۲/ ۲۳۶)
سیدنا عبداللہ بن اُنیس رضی اللہ عنہ چون (۵۴) ہجری میں فوت ہوئے تھے اور امام ابو حنیفہ اَسّی ( ۸۰) ہجری میں پیدا ہوئے تھے۔ دیکھئے: تقریب التہذیب (۳۲۱۶ ، ۷۱۵۳)
اپنی پیدائش سے چھبیس ( ۲۶) سال پہلے فوت ہو جانے والے صحابی سے امام ابو حنیفہ کس طرح حدیث سن سکتے تھے؟ کیا انہی ’ تحقیقات ‘ کی بنا پر انہوں نے ’شیخ الاسلام‘ کا لقب اختیار کیا ہے؟!
8. طاہر القادری صاحب فرماتے ہیں :
’’ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں ۸۰ ہجری میں پیدا ہوا اور میں نے اپنے والد کے ساتھ ۹۶ ہجری میں ۱۶ سال کی عمر میں حج کیا پس جب میں مسجد ِحرام میں داخل ہوا میں نے ایک بہت بڑا حلقہ دیکھا تو میں نے اپنے والد سے پوچھا یہ کس کا حلقہ ہے؟تو اُنہوں نے فرمایا: یہ عبداللہ بن جَزء زبیدی کا حلقہ ہے۔ پس میں آگے بڑھا اور ان کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : جو اللہ تعالیٰ کے دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے غموں کو کافی ہو جاتا ہے اور اسے وہاں وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں کا وہ سوچ بھی نہیں سکتا۔‘‘ ( المنہاج السوي ص ۸۰۹ ح ۱۰۴۸، بحوالہ جامع المسانید للخوارزمي ۱/۸۰، تاریخ بغداد للخطیب البغدادي۳/ ۳۲ رقم ۹۵۶)
اس روایت کی دو سندیں ہیں :
1.ایک میں احمد بن صلت حمانی ہے جو کہ بہت بڑا کذاب تھا۔ (دیکھئے مضمون ہذا ،روایت نمبر ۶)
2.الحسن بن علی دمشقی کذاب ہے ۔ (دیکھئے روایت نمبر ۷)