کتاب: محدث شمارہ 339 - صفحہ 44
اِقرار کیا ہے۔ ‘‘ ( تبرک کی شرعی حیثیت ،ص ۶۰ حاشیہ ۲) عرض ہے کہ نہ تو حلبی نے انسان العیون ( ۱/ ۱۳۵، دوسرا نسخہ ۱/ ۸۳) میں یہ بات کہی ہے اور نہ حفاظِ حدیث نے اس کی صحت کا اقرار کیا ہے بلکہ حلبی نے روی کہہ کر اس روایت کو بغیر سند اوربغیر حوالے کے ذکر کیاہے جبکہ حافظ ذہبی نے اس روایت کے راوی احمد بن کنانہ شامی پر ابن عدی کی جرح نقل کی، اور یہ حدیث مع دیگر اَحادیث نقل کر کے فرمایا: ’’قلت:وھٰذہ أحادیث مکذوبۃ‘‘ ’’میں نے کہا: اور یہ حدیثیں جھوٹی ہیں ۔ ‘‘ ( میزان الاعتدال :۱/ ۱۲۹ ت ۵۲۲) حافظ ابن حجر نے اس جرح کو نقل کر کے برقرار رکھا اور کوئی تردید نہیں کی۔ (دیکھئے :لسان المیزان :۱/ ۲۵۰، دوسرا نسخہ :۱/ ۳۷۷) حفاظِ حدیث نے تو اس روایت کو مکذوب(جھوٹی) قرار دیا ہے، لیکن طاہر القادری صاحب اسے صحیح باور کرانے کی فکر میں ہیں ۔ 6. طاہر القادری صاحب نے امام ابو حنیفہ سے ایک روایت نقل کی : ’’ میں نے حضرت انس بن مالک رحمہ اللہ سے سنا، اُنھوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:((طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلیٰ کُلِّ مُسْلِمٍ)) ’’علم حاصل کرناہر مسلمان پر فرض ہے۔ ‘‘ ( امام ابو حنیفہ امام الائمہ فی الحدیث :۱/ ۷۸۷، ۷۸۶) قادری صاحب نے اس کے لئے تین حوالے دیئے: ’’1.ابو نعیم الاصبہانی ، مسند الامام ابی حنیفہ : ۱۷۶ ( ہمارا نسخہ ص ۲۴) 2.خطیب بغدادی ، تاریخ بغداد ، ۴: ۲۰۸، ۹: ۱۱۱ 3. موفق ، مناقب الامام الاعظم ابی حنیفہ ، ۱: ۲۸ ‘‘ اس کے بعد قادری صاحب نے دیگر محدثین کے حوالے دیئے ، جن کی روایات میں إمام أبو حنیفۃ قال:سمعت أنس بن مالک رضي اﷲ عنہ یقول:‘‘ کا نام و نشان تک نہیں لہٰذا اُن کا یہاں ذکر صحیح نہیں ہے۔ روایت ِ مذکورہ کی تینوں سندوں میں احمد بن صلت حمانی راوی ہے، جسے امام ابن عدی،