کتاب: محدث شمارہ 339 - صفحہ 43
( نیز دیکھئے المجموع في ترجمۃ حماد الانصاري :۲/ ۷۲۳ فقرہ نمبر ۱۱۰)
معلوم ہوا کہ فتاویٰ ابن تیمیہ مطبوعہ پر اندھا دھند اعتماد صحیح نہیں بلکہ اس کی عبارات کو حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی دوسری عبارات پر پیش کرنا چاہئے۔
قادری صاحب کی نو( ۹) غلط بیانیوں کے تذکرے کے بعد عرض ہے کہ مستدرک الحاکم وغیرہ کی روایتِ مذکورہ موضوع ہے۔ اسے حافظ ذہبی نے موضوع کہا اور باطل خبر قرار دیا۔ حافظ ابن حجر نے ’خبرًا باطلا‘ والی جرح نقل کر کے کوئی تردید نہیں کی یعنی حافظ ابن حجر کے نزدیک بھی یہ روایت باطل ہے۔ (دیکھئے: لسان المیزان :۳/ ۳۶۰، دوسرا نسخہ :۴/ ۱۶۲)
٭ اگر کوئی کہے کہ حاکم نے اسے صحیح الإسناد کہا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تصحیح کئی وجہ سے غلط ہے۔مثلاً:
1.خود حاکم نے اس روایت کے ایک راوی عبدالرحمن بن زید بن اسلم کے بارے میں فرمایا: ’’روٰی عن أبیہ أحادیث موضوعۃ۔ ۔ ۔‘‘ ( المدخل إلی الصحیح ص ۱۵۴ت ۹۷)
’’اُس نے اپنے باپ سے موضوع حدیثیں بیاں کیں ۔‘‘
گویا وہ اپنی شدید جرح بھول گئے تھے۔
2.حاکم کی یہ جرح جمہور علماء مثلاً حافظ ذہبی وغیرہ کی جرح سے معارض ہے۔
3.حاکم اپنی کتاب المستدرک میں متساہل تھے۔
4.اس کی سند میں عبداللہ بن مسلم راوی ہے، جس کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس کا عبداللہ بن مسلم بن رشید ہونا میرے نزدیک بعید نہیں ہے۔ ( لسان المیزان ۳/ ۳۶۰)
اس ابن رشید کے بارے میں حافظ ابن حبان نے فرمایا:’یضع‘وہ ( حدیثیں ) گھڑتا تھا۔
( المجروحین:۲/ ۴۴، لسان المیزان:۳/ ۳۵۹)
5. ایک روایت میں آیا ہے کہ ’’ کوئی قوم مشورہ کے لئے جمع ہو اور محمد نام والا کوئی شخص اُن کے مشورہ میں داخل نہ ہو تو اُن کے کام میں برکت نہیں ہو گی۔‘‘ (موضح أوھام الجمع والتفریق للخطیب:۱/ ۴۲۹،دوسرا نسخہ ۱/ ۴۴۶ ذکر أحمد بن حفص الجزري )
یہ روایت نقل کر کے طاہر القادری صاحب نے لکھا ہے کہ
’’ حلبی نے إنسان العیون (۱:۱۳۵) میں کہا ہے کہ حفاظِ حدیث نے اِس روایت کی صحت کا