کتاب: محدث شمارہ 339 - صفحہ 42
4.المعجم الصغیر للطبراني (۲/ ۸۲، ۸۳ ح ۱۰۰۵، بترقیمی) میں یہ روایت موجود ہے لیکن امام طبرانی نے اسے صحیح قرار نہیں دیابلکہ فرمایا:یہ (سیدنا) عمر رضی اللہ عنہ سے صرف اسی اسناد (سند ) کے ساتھ مروی ہے، احمد بن سعید نے اس کے ساتھ تفرد کیا ہے۔
5.حافظ ہیثمی نے اس روایت کو صحیح قرار نہیں دیا، بلکہ لکھا ہے:
’’رواہ الطبراني في الأوسط والصغیر وفیہ من لم أعرفھم ‘‘
’’ اسے طبرانی نے الأوسط اورالصغیرمیں روایت کیا اور اس میں ایسے راوی ہیں جنھیں میں نہیں جانتا ۔‘‘ ( مجمع الزوائد: ۸/ ۲۵۳)
6.ابن عدی کی کتاب الکامل کے محولہ صفحے بلکہ ساری کتاب میں یہ روایت نہیں ملی۔
7.درّمنثور(۱/ ۵۸، دوسرا نسخہ ۱/ ۱۳۱)میں یہ روایت بحوالہ المعجم الصغیر للطبراني، حاکم،الدلائل لأبي نعیم، الدلائل للبیہقي اور ابن عساکر موجود ہے، لیکن اسے صحیح قرار نہیں دیا گیا۔
8.الآجري نے اسے صحیح قرار نہیں دیا۔ (الشریعہ: ص ۴۲۷، ۴۲۸ ح ۹۵۶، دوسرا نسخہ :۳/ ۱۴۱۵)
9.حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس روایت کو بحوالہ ابو نعیم في دلائل النبوۃ نقل توکیا ہے مگر صحیح قرار نہیں دیا،بلکہ عرش کے بارے میں صحیح اَحادیث کی تفسیر کے طور پر نقل کیا۔ (دیکھئے: مجموع فتاویٰ : ۲/ ۱۵۰، ۱۵۱)بلکہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بذاتِ خود اس روایت پر جرح کی ، فرمایا:
’’اس حدیث کی روایت پر حاکم پر انکار کیا گیا ہے،کیونکہ اُنہوں نے خود (اپنی)کتاب المدخلمیں کہا: عبدالرحمن بن زید بن اسلم نے اپنے باپ سے موضوع حدیثیں روایت کیں ۔۔۔( قاعدۃ جلیلۃ في التوسل والوسیلۃ ص ۸۵، مجموع فتاویٰ ج۱ص ۲۵۴۔ ۲۵۵)
فائدہ: مجھے عبدالاول بن حماد بن محمد انصاری مدنی4.نے خبر دی کہ میں نے اپنے والد (شیخ حماد الانصاری رحمہ اللہ)کو فرماتے ہوئے سنا:
’’إن الاعتماد علی الفتاوٰی التي في خمسۃ وثلاثین مجلدًا لا ینبغي وتحتاج إلی إعادۃ النظر وقد وجدّتُ فیھا تصحیفًا وتحریفًا ‘‘
’’بے شک پینتیس (۳۵) جلدوں والے فتاویٰ پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے اور ( اس میں )نظر ثانی کی ضرورت ہے،میں نے اس میں تصحیف اور تحریف پائی ہے۔‘‘