کتاب: محدث شمارہ 339 - صفحہ 41
4.ایک روایت میں آیا ہے کہ آدمؑ نے (سیدنا) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے دعا کی تھی۔ طاہر القادری صاحب نے اس روایت کو بحوالہ المستدرک للحاکم ( ۲/ ۶۱۵) نقل کر کے لکھا ہے:
’’ اس حدیث پاک کو جن اجل علماء اور ائمہ و حفاظ حدیث نے اپنی کتب میں نقل کر کے صحیح قرار دیا ہے، ان میں سے بعض یہ ہیں :
1.البیہقي في الدلائل، ۵:۴۸۹ 2.ابو نعیم فی الحلیۃ ، ۹: ۵۳
3.التاریخ الکبیر ، ۷: ۳۷۴ 4.المعجم الصغیر للطبراني، ۲: ۸۲
5.الہیثمي في مجمع الزوائد، ۸: ۱۵۳ 6.6.ابن عدي في الکامل ، ۴: ۱۵۸۵
7.الدر المنثور، ۱: ۶۰ 8.الآجري في الشریعۃ ۴۴۲۔ ۴۲۵
9.فتاوٰی ابن تیمیہ ، ۲: ۱۵۰ ‘‘
( عقیدئہ توحید اور حقیقت ِشرک، ص ۲۶۶، اشاعت ہفتم ،جون ۲۰۰۵ء)
اس عبارت میں طاہر القادری صاحب نے نو(۹) مذکورہ کتابوں اور علماء کے بارے میں نو (۹) عدد غلط بیانیاں کی ہیں ، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
1.امام بیہقی نے اس روایت کو صحیح نہیں کہا، بلکہ فرمایا:
’’تفرّد بہ عبدالرحمٰن بن زید ابن أسلم من ھذا الوجـہ عنہ وھـو ضعیف (واﷲ أعلم)‘‘
( دلائل النبوۃ :۵/ ۴۸۹ ،طبع دارالکتب العلمیہ بیروت، لبنان )
’’اس سند کے ساتھ عبدالرحمن بن زید بن اسلم منفرد ہوا، اور وہ ضعیف ہے۔ ‘‘( واللہ اعلم )
امام بیہقی نے توراوی کو ضعیف قرار دیا ہے اور قادری صاحب کہہ رہے ہیں کہ اُنہوں نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے ۔ سبحان اللہ!
2.حافظ ابو نعیم الاصبہانی کی کتاب حلیۃ الأولیاء ( ۹/ ۵۳) میں یہ روایت نہیں ملی اور نہ اسے ابو نعیم کا صحیح قرار دینا ثابت ہے۔
3.التاریخ الکبیرسے مراد اگر امام بخاری کی کتاب التاریخ الکبیرہے تو یہ روایت وہاں نہیں ملی اور نہ امام بخاری سے اسے صحیح قرار دینا ثابت ہے۔اگر التاریخ الکبیرسے مراد کوئی دوسری کتاب ہے تو اس کی صراحت کیوں نہیں کی گئی بلکہ یہ تو صریح تدلیس ہے۔