کتاب: محدث شمارہ 339 - صفحہ 40
میں نقل کیا ہے:’’ مُعضل سے مروی حدیث ِمبارکہ میں ہے: إذا کان یوم القیامۃ ۔۔۔ ‘‘
( تبرک کی شرعی حیثیت، ص ۵۸، اشاعت سوم، ستمبر ۲۰۰۸ئ)
گویا کہ طاہر القادری صاحب کے نزدیک معضل نامی کوئی راوی تھا ، جس سے یہ موضوع حدیث مروی ہے۔ سبحان اللہ !!
اُصولِ حدیث کی اِصطلاح معضل( یعنی منقطع) کو راوی بنا دینا اس بات کی دلیل ہے کہ واقعی طاہر القادری صاحب بہت بڑے ’ ڈاکٹر ‘ اور ’ پروفیسر‘ ہیں ۔ سبحان اللہ !
3. ایک روایت میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم !(اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) میں کسی ایسے شخص کو آگ کا عذاب نہیں دوں گا جس کا نام آپ کے نام پر (یعنی محمد ) ہو گا۔ (إنسان العیون یعنی السیرۃ الحلبیۃ:۱/ ۸۳، دوسرا نسخہ :۱/ ۱۳۵)
اس روایت کو طاہر القادری صاحب نے روایت نمبر ۱ قرار دے کر بحوالہ انسان العیون بطورِ حجت پیش کیا ہے، حالانکہ انسان العیون (السیرۃ الحلبیۃ) نامی کتاب میں اس کی کوئی سند یا حوالہ موجود نہیں ہے۔
علامہ عجلونی حنفی اور ملا علی قاری نے بتایا کہ اسے ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔ (دیکھئے: کشف الخفاء ومُزیل الإلباس:۱/۳۹۰ح ۱۲۴۵،الأسرار المرفوعۃ في الأخبار الموضوعۃ : ص ۲۰۱ رقم ۱۹۲)
ابو نعیم والی روایت کی سند سیوطی کی کتاب ذیل اللآلي المصنوعۃ(ص ۲۰۱) میں موجود ہے اور ابو نعیم کی سند سے ہی اسے مسند الفردوس میں نقل کیا گیا ہے۔ دیکھئے مسند الفردوس اور اس کا حاشیہ (۳/ ۲۲۰ ح ۴۴۹۱ وقال في الأصل:نبیط بن شریط)
اس کے راوی احمد بن اسحق بن ابراہیم بن نبیط بن شریط کے بارے میں حافظ ذہبی نے فرمایا :’’لا یحل الاحتجاج بہ فإنہ کذاب‘‘ ’’اس سے حجت پکڑنا حلال نہیں ،کیونکہ وہ کذاب ( جھوٹا )ہے۔ ‘‘ (میزان الاعتدال:۱/ ۸۳ ت ۲۹۶، لسان المیزان: ۱/ ۱۳۶)
کذاب کے موضوع نسخے سے روایت کو ’ مشہور حدیث ِمبارکہ‘ کہہ کر بطورِ حجت نقل کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ بیان کرنیوالاڈاکٹر طاہر القادری ترویج اکاذیب میں مصروف ہے۔