کتاب: محدث شمارہ 339 - صفحہ 36
ہے۔ اس حدیث کو اس سند کے ساتھ علامہ البانی نے ’صحیح ابن ماجہ :۱۵۲۲‘میں ’صحیح ‘کہا ہے۔ 13.عَنْ اُمِّ عَطِیَّۃَ رَضِیَ اﷲُ عَنْھَا قَالَتْ:اُمِرْنَا اَنْ نُخْرِجَ الْحُیَّضَ یَوْمَ الْعِیْدَیْنِ وَذَوَاتِ الْخُدُوْرِ فَیَشْھَدْنَ جَمَاعَۃَ الْمُسْلِمِیْنَ وَدَعْوَتَھُمْ وَیَعْتَزِلُ الْحُیَّضُ عَنْ مُصَلَّاھُنَّ،قَالَتِ امْرَأَۃٌ یَارَسُوْلَ اﷲِ اِحْدَانَا لَـیْسَ لَھَا جِلْبَابٌ؟ قَالَ : ((لِتُلْبِسْھَا صَاحِبَتُھَا مِنْ جِلْبَابِھَا)) (صحیح بخاری:۳۵۱) ’’حضرت اُمّ عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم حیض والی اور پردہ نشین عورتوں کو عیدین کے دن نکالیں ،وہ مسلمانوں کی جماعت اور دعا میں حاضر ہوں ، اور حیض والی عورتیں نماز کی جگہ سے علیحدہ رہیں ۔ ایک عورت نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر ہم میں سے کسی کے پاس چادر نہ ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ اس کی سہیلی اس کو اپنی چادر میں شریک کرے۔‘‘ اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بغیر چادر باہر نکلنے کا کوئی تصور بھی نہ تھا۔ چادر کے لیے اس حدیث میں ’جلباب‘ کا ذکر آیا ہے۔ جلباب وہ چادر ہے جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ازواج مطہرات اور مؤمن عورتیں گھر میں بھی اور گھر کے باہر بھی استعمال کرتی تھیں ۔گھر میں یہ چادر نماز وغیرہ کے لیے استعمال ہوتی تھی اس لیے عورتیں اس سے اپنے چہرے اور ہاتھوں کے علاوہ جسم کو ڈھانپتی تھیں ، لیکن گھر سے باہرنکلتے وقت اُمہات المؤمنین اور عام مؤمن عورتیں اسی چادر سے اپنے جسم کے علاوہ اپنے چہرے کو بھی چھپا لیتی تھیں جیسا کہ حضرت عائشہ ؓکی بخاری کی روایت((فخمرت وجھي بجلبابي)) سے ظاہر ہے۔ اِعتذار ماہنامہ’محدث‘ جون ۲۰۱۰ئ،ص۴۶پرمضمون ’وجودِ باری تعالیٰ؛سائنس کی نظر میں ‘کے مصنف ڈاکٹر کریسی موریسن کاتعارف غلطی سے(پروفیسر کلیۃ الدراسات الإسلامیۃ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد) شائع کر دیا گیا جب کہ موصوف کا تعارف یوں پڑھا جائے:(سابق صدر نیو یارک اکیڈمی آف سائنس، امریکہ)قارئین تصحیح فرما لیں !