کتاب: محدث شمارہ 339 - صفحہ 35
ایک بچہ بھی تھا تو اس نے سوال کیا، کیا اس کے لیے بھی حج ہے تو آپ نے فرمایا ہاں ‘ اور تیرے لیے اس کا اجر ہے ۔ ‘‘
12.عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَۃَ قَالَ:خَطَبْتُ امْرَأَۃً فَجَعَلْتُ اَتَخَبَّـأُ لَھَا حَتّٰی نَظَرْتُ اِلَیْھَا فِیْ نَخْلٍ لَھَا فَقِیْلَ لَہٗ اَتَفْعَلُ ھٰذَا وَاَنْتَ صَاحِبُ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم ؟ فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ:((اِذَا اَلْقَی اللّٰہُ فِیْ قَلْبِ امْرِیٍٔ خِطْبَۃَ امْرَأَۃٍ فَلَا بَأْسَ اَنْ یَّنْظُرَ اِلَیْھَا)) (سنن ابن ماجہ:۱۸۶۴)
’’حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے ایک عورت کی طرف نکاح کا پیغام بھیجا اور میں اس کو چوری چھپے دیکھنے کی کوشش کرنے لگ گیا‘حتیٰ کہ ایک دن وہ عورت اپنے باغ میں گئی تو میں نے (موقع پا کر) اس کو دیکھ لیا تو مجھ سے لوگوں نے کہا:آپ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہو کر ایسا کرتے ہیں ؟ تو میں نے کہا کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ’’جب کسی مرد کا کسی عورت سے شادی کا ارادہ ہو تو اس کی طرف دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے‘‘۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ کہ فَلَا بَاْسَ اَنْ یَنْظُرَ اِلَـیْھَا اس بات کی دلیل ہیں کہ اگر کسی عورت سے نکاح کی خواہش ہو تو اس کو دیکھنے کی رخصت ہے، اس کے علاوہ نہیں ۔ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کا تکلف کر کے اس عورت کو دیکھنے کی کوشش کرنا اور اس کے باجود نہ دیکھ پانابھی اس بات کی دلیل ہے کہ عورتیں اس زمانے میں حجاب کرتی تھیں ۔اسی طرح اگر وہ عورت بھی حجاب نہ کرتی ہوتی تو حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو چوری چھپے تکلف کر کے اس خاتون کو دیکھنے کی کیا ضرورت تھی؟
اعتراض: بعض ناقدین نے اس حدیث پر اعتراض کیا ہے کہ اس میں ایک راوی ’حجاج بن ارطاۃ‘ ضعیف ہے جس کی وجہ سے یہ حدیث قابل حجت نہیں ہے۔
جواب:
ہم یہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو علامہ البانی نے( إرواء الغلیل :۱۷۹۱) میں اور( صحیح ابو داؤد :۲۰۸۲) میں ’حسن‘کہا ہے۔
علاوہ ازیں یہ حدیث سنن ابن ماجہ:کتاب النکاح ‘باب فی الرجل ینظر إلی المرأۃ میں بھی ایک دوسری سندکے ساتھ موجود ہے اور اس کی اس سند میں حجاج بن ارطاۃ راوی نہیں