کتاب: محدث شمارہ 339 - صفحہ 32
8.عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اﷲُ عَنْھُمَا قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ((مَنْ جَرَّ ثَوْبَہٗ خُیَلَائَ لَمْ یَنْظُرِ اللّٰہُ اِلَیْہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ)) فَقَالَتْ اُمُّ سَلْمَۃَ : فَـکَیْفَ یَصْنَعْنَ النِّسَائُ بِذُیُوْلِھِنَّ؟ قَالَ:((یُرْخِیْنَ شِبْرًا)) فَقَالَتْ:اِذًا تَنْکَشِفُ أَقْدَامُھُنَّ قَالَ: ((فَیُرْخِیْنَہٗ ذِرَاعًا لَا یَزِدْنَ عَلَیْہِ)) (سنن ترمذی:۱۷۳۱)
’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ جو بھی اپنے کپڑے کو تکبر کے باعث کھینچے (یعنی لٹکائے )گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نظرِ کرم نہ کرے گا‘‘ تو حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے سوال کیا :عورتیں اپنے پلو کا کیا کریں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسے ایک بالشت لٹکا لیں ‘‘۔ حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی: تب تو ان کے پاؤں ننگے رہ جائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’تو وہ ایک ہاتھ لٹکا لیں ‘ لیکن اس سے زیادہ نہ لٹکائیں ۔‘‘
یہ حدیث واضح طو رپربیان کر رہی ہے کہ عورت کے لیے اپنے قدم یعنی پاؤں کا ڈھانپنا واجب ہے۔ توجب پاؤں کا ڈھانپنا واجب ہے تو چہرے کا ڈھانپنا بالاولیٰ واجب ہے،کیونکہ چہرے کو کھلا رکھنے میں پاؤں کی نسبت زیادہ فتنے کا اندیشہ ہے۔
9.وَعَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ الْجُھَنِیِّ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ:((اِیَّاکُمْ وَالدُّخُوْلَ عَلَی النِّسَآئِ)) فَقَالَ رَجُلٌ مِّنَ الْاَنْصَارِ: یَا رَسُوْلَ اﷲِ!اَفَرَاَیْتَ الْحَمْوَ؟ قَالَ: ((اَلْحَمْوُ الْمَوْتُ)) (صحیح بخاری:۵۳۳۲)
’’حضرت عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’عورتوں پر داخل ہونے سے بچو (یعنی مردوں کا عورتوں کی محفلوں میں جانا ممنوع ہے)‘‘ تو انصار میں سے ایک آدمی نے کہا :اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شوہر کے قریبی رشتہ داروں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’شوہر کے قریبی رشتہ دار تو موت ہیں ۔‘‘
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو عورتوں سے معاملہ کرتے وقت اُن کے سامنے آنے سے منع فرمایا ۔ یعنی اگر کوئی معاملہ کرنا ہے تو آیت قرآنی ﴿فَاسْئَلُوْھُنَّ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ﴾کے مصداق پردے کے پیچھے سے ہونا چاہیے۔ علاوہ ازیں یہ حدیث اختلاطِ مرد و زن کی ممانعت کی بھی واضح دلیل ہے۔