کتاب: محدث شمارہ 339 - صفحہ 28
’’تو ملیحہ سے جا کر کہہ دے کہ تو نے اپنے سنہری خمار (چادر) کی وجہ سے میر ے درویش صفت بھائی کے تقویٰ اور مذہب کو خراب کر دیا ہے۔ خمار (چادر) کا نور اور پھر اُس کے نیچے تیرے رخساروں کا نور ہے ۔مجھے تیرے چہرے پر تعجب ہے کہ وہ (اتنے نور کے باوجود) ابھی تک شعلہ کیوں نہیں مار رہا! شاعر نے اپنی محبوبہ کا یہ وصف بیان کیا ہے کہ اُس کا خمار اُس کے چہرے پر بھی تھا۔‘‘ علامہ البانی کا کلام ختم ہوا۔
محل استشہاد نور الخمار ونور خدک تحتہ ہے۔
پس ثابت ہوا کہ صحابہ کرام اور تابعین کی اپنی لغت میں ’خمار‘ کا لفظ چہرہ ڈھانپنے کے لیے استعمال کرتے تھے اب اس کے بعد کوئی اگر یہ مطالبہ کرے کہ مجھے لسان العرب، القاموس المحیط اور مقاییس اللغۃ جیسی لغت عربی کی کتب سے یہ نکال کر دکھاؤ کہ لفظ ’خمار‘ چہرہ ڈھانپنے کے لیے استعمال ہوتا ہے تو اس کے بارے میں ہم یہی کہیں گے :﴿وَاِذَا خَاَطَبَھُمُ الْجَاھِلُوْنَ قَالُوْا سَلَامًا﴾
4. عَنْ عَائِشَۃَ اَنَّ اَفْلَحَ اَخَا اَبِی الْعُقَیْسِ جَائَ یَسْتَاْذِنُ عَلَیْھَا وَھُوَ عَمُّھَا مِنَ الرَّضَاعَۃِ بَعْدَ اَنْ نَزَلَ الْحِجَابُ فَاَبَیْتُ اَنْ آذَنَ لَہٗ فَلَمَّا جَآئَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اَخْبَرْتُہٗ بِالَّذِیْ صَنَعْتُ فَأَمَرَنِیْ أَنْ آذَنَ لَہٗ (صحیح بخاری:۵۱۰۳)
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے رضاعی چچا أفلح کے بارے میں بیان کرتی ہیں جو کہ ابوعقیس کے بھائی تھے‘کہ انہوں نے مجھ سے حجاب کی آیات نازل ہونے کے بعد گھر میں داخل ہونے کی اجازت مانگی تو میں نے انہیں اجازت دینے سے انکار کر دیا۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ‘ کو اس واقعہ کی خبر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں افلح کو گھر میں داخل ہونے کی اجازت دوں ۔‘‘
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح میں بیان کرتے ہیں :
’’وفیہ وجوب احتجاب المرأۃ من الرجال الأجانب‘‘
’’یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ عورتوں کا اجنبی مردوں سے پردہ کرنا واجب ہے‘‘۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا پہلے یہی خیال تھا کہ اپنے رضاعی چچا سے بھی پردہ ہے،اس لیے انہوں نے اپنے رضاعی چچا کو اپنے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی۔ بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم