کتاب: محدث شمارہ 339 - صفحہ 25
الأئمۃ و البرقع أقوی من النقاب فلھذا ینھی عنہ باتفاقھم ولھذا کانت المحرمۃ لا تلبس مایصنع لستر الوجہ کالبرقع ونحوہ فانہ کالنقاب‘‘ (فتاوی ابن تیمیہ:۲۶/ ۱۱۲- ۱۱۳) ’’اگر عورت حالت احرام میں اپنا چہرہ کسی ایسی چیز سے چھپا لے جو اس کے چہرے کو مس نہ کرے تو علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایسا کرنا جائز ہے اور اگر وہ ایسی چیز سے اپنا چہرہ چھپائے کہ جس اس کے چہرے کو مس کر رہی ہو تو صحیح قول یہ ہے یہ بھی جائز ہے عورت کو اس بات کا مکلف نہیں بنایا جا سکتا کہ وہ چہرہ چھپانے والے کپڑے کو اپنے چہرے سے کسی لکڑی یا ہاتھ یا کسی اور چیز کے ذریعے دور رکھے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے چہرے اور ہاتھوں کو برابر قرار دیا ہے اور ان دونوں کا حکم وہی ہے جو کہ مرد کے بدن کا حکم ہے اور ان دونوں کو مرد کے سر کے ساتھ تشبیہ دینا جائز نہیں ہے۔آپ کی بیویاں اپنے چہروں پر کپڑا لٹکا لیا کرتی تھیں اور اس بات کا لحاظ نہیں کرتی تھیں کہ وہ ان کے چہرے سے علیحدہ رہے اور نہ ہی اہل علم میں سے کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نقل کیا ہے کہ’’ عورت کا احرام اس کے چہرے میں ہے ‘‘ ۔یہ بعض سلف کا قول ہے۔البتہ آپ نے عورت کے نقاب اور دستانے پہننے سے منع کیا ہے جیساکہ مرد کو قمیص اور موزے پہننے سے اور مرد کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اپنے ہاتھ اور پاؤں حالت احرام میں چھپا سکتا ہے اور اس پر علماء کا اتفاق ہے۔برقع ‘نقاب کی ایک ترقی یافتہ شکل ہے اس لیے اس کی ممانعت پر علماء کا اتفاق ہے۔اس لیے حالت احرام میں عورت ایسا لباس نہیں پہنے گی جو کہ چہرہ چھپانے کے لیے ہی بنایا گیا ہوجیسا کہ برقع وغیرہ ہے جو کہ نقاب ہی کی ایک شکل ہے ۔‘‘ اس حدیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتیں حالت احرام کے بغیر بھی پردہ کرتی تھیں ۔ صحابیات کے اس عمل سے معلوم ہوتاہے کہ چہرے کے پردہ کا درجہ وجوب کاہے، کیونکہ صحابیات کا اپنے چہرے کو چھپانادرحقیقت آیت حجاب،آیت زینت، آیت جلباب وغیرہ پر عمل تھا۔ ٭ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ’قصۃ الإفک‘ والی روایت میں حضرت صفوان رضی اللہ عنہا کے بارے میں بیان