کتاب: محدث شمارہ 339 - صفحہ 23
عمومیت کی تائید اگلی روایت سے بھی ہو رہی ہے۔ اعتراض:یہ اعتراض کیا جاتاہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے، کیونکہ علامہ البانی نے اسے ضعیف کہا ہے۔ جواب: ہم یہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کے بارے میں علامہ البانی کے اقوال متناقض ہیں ، علامہ نے اس حدیث کو ضعیف ابو داؤد(رقم:۱۸۳۳)میں ’ضعیف‘ کہا ہے جبکہ حجاب المرأۃ المسلمۃ (ص۳۲) اور مشکوۃ المصابیح (رقم:۲۶۹۰)میں اس کو’صحیح‘ کہا ہے اسی طرح علامہ نے جلباب المرأۃ المسلمۃ (ص۱۰۸)میں اس کو ’حسن فی الشواہد‘کہا ہے اور صحیح بات یہی ہے کہ یہ حدیث حسن ہے، کیونکہ ایک حدیث‘ سند میں کسی راوی کے ضعیف ہونے کی وجہ سے فی نفسہ ضعیف ہوتی ہے، لیکن اپنے جیسی بعض ہم معنی احادیث کی تائیدکی صورت میں حسن کے درجہ کو پہنچ جاتی ہے۔چونکہ اس روایت کی تائید دیگر شواہد سے ہوتی ہے جیسا کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے اس لیے یہ روایت حسن ہے۔ اس حدیث کی سند میں ایک راوی یزید بن ابی زیاد مختلف فیہ راوی ہے،جس کی وجہ سے بعض محدثین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے، لیکن اس راوی کا ضعیف ہونا ائمہ محدثین کے نزدیک اتفاقی نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ امام مسلم نے بھی اس سے حدیث نقل کی ہے اور امام ذھبی نے اسے صدوق کہا ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو اس کے شواہد کی وجہ سے حسن کہا ہے اور یہی بات صحیح معلوم ہوتی ہے۔ 2.اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ((وَلَا تَنْتَقِبِ الْمَرْأَۃُ الْمُحْرِمَۃُ وَلَا تَلْبَسِ الْقُفَّازَیْنِ))(صحیح بخاری:۱۸۳۸) ’’اورحالتِ احرام میں کوئی عورت نقاب نہ اوڑھے اور نہ ہی دستانے پہنے۔‘‘ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں : ’’وھذا مما یدل علی أن النقاب والقفازین کانا معروفین فی النساء اللاتی لم یحرمن وذلک یقتضی ستر وجوھھن وأیدیھن ‘‘