کتاب: محدث شمارہ 339 - صفحہ 21
خلاف مؤثر لائحہ عمل تیار کرنا چاہئے۔ 6.مغربی فکر و تہذیب کا ردّ: مسلمانوں کا اس وقت حقیقی اور بڑا مسئلہ مغربی فکرسے مرعوبیت کے خاتمے اور مغرب کی ذہنی غلامی سے نجات کا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ حرمت ِرسول کی تحریک چلانے والے رہنما اور علماے کرام تدبر و حکمت سے اس تحریک کا رخ مغرب کی ملحدانہ فکر اور تہذیبی مظاہر سے تنفر کی طرف موڑ دیں مثلاً مغربی لباس کیوں پہناجائے؟ سکول انگلش میڈیم کیوں ہوں ؟ تعلیم مخلوط کیوں ہو؟… وغیرہ۔ بعض لوگ سوچتے ہیں کہ اس تحریک کے نتیجے میں مسلمانوں میں امریکہ و یورپ دشمنی کے جذبات میں خود بخود اضافہ ہوگا۔ ہم کہتے ہیں کہ ایساہو بھی تو یہ کافی نہیں ہے بلکہ اہم بات یہ ہے کہ ہمیں مغرب کی فکری و ذہنی غلامی سے نکلنا ہے۔ اگر ہم امریکہ کے خلاف سیاسی طور پر مردہ باد کے نعرے لگاتے رہیں ، لیکن ہماری معیشت، معاشرت، تعلیم غرض ہر جگہ مغربی فکر و تہذیب کا غلبہ ہو تو اس مردہ باد کے نعرے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ اس لئے اس امر پر بہت سنجیدگی سے سوچا جائے کہ آج کے مسلمانوں خصوصاً پڑھے لکھے افراد کو مغرب کی فکری و تہذیبی غلامی سے نکالنے کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے حکومتی مدد کے بغیر دینی عناصر کے لئے کام کا وسیع میدان موجود ہے جس کا مرکزی نکتہ یہ ہونا چاہئے کہ مغربی فکر و تہذیب کو ردّ کر دیا جائے اور اس کی جگہ اسلامی اُصول و اقدار کو فروغ دیا جائے۔ 7.اسبابِ ضعف کا خاتمہ: اور آخری بات یہ کہ مسلمانوں کو اس امر کا احساس کرناچاہئے کہ آج ان کے پیغمبر کی توہین اس لئے ہورہی ہے کہ وہ دنیا میں کمزورو ناتواں ہیں اور بین الاقوامی سطح پران کاکوئی وزن اور ان کی کوئی وقعت و اہمیت نہیں ہے۔ اگر آج وہ تنکے کی طرح ہلکے نہ ہوتے تو کس کی مجال تھی کہ ان کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی دیکھتا۔ لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنا احتساب کریں ، اپنی کمزوریاں دور کریں اور اسبابِ ضعف کا خاتمہ کریں ۔ اپنے دین سے محکم وابستگی اختیار کریں اور اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں احکامِ شریعت پر عمل کریں کہ یہی ان کے لئے منبع قوت ہے اور گہرے ایمان اور برتراخلاق کے ساتھ ساتھ علم و تحقیق اور سائنس و ٹیکنالوجی میں بھی متحد ہو کر آگے بڑھیں اور طاقتور بنیں تاکہ دنیاان کی بھی قدر کرے اور ان رہنماؤں کی بھی جنہیں وہ مقدس سمجھتے اور محترم گردانتے ہیں ۔