کتاب: محدث شمارہ 339 - صفحہ 20
ہے۔ اب یہ مسلمان حکمرانوں ، دانشوروں اور علماے کرام کا کام ہے کہ وہ ان کے سامنے اسلام کی اصل حقیقت اور اس کا اصل چہرہ خصوصاً قرآنِ حکیم کی تعلیمات اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مؤثر انداز میں تحریر و تقریر کے ذریعے پیش کریں ۔ اگرمسلمان دعوت کے اس سنہری موقع کو ضائع نہ کریں تو وہ مغربی عوام میں سے بہت سوں کے دل و دماغ جیت سکتے ہیں اوراس کے لئے توپ و تفنگ کی نہیں ، حکمت و تدبر،خاموشی اور سمجھ داری کے ساتھ پلاننگ اور ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ 3.معاشی بائیکاٹ: مادہ پرست مغرب اگر روحانی اقدار کی اہمیت کو نہیں سمجھتا تو مادی مفادات اور اَقدار کی تو اسے خوب سمجھ ہے، لہٰذا اسے اُسی اُسلوب میں جواب دینا چاہئے جسے وہ سمجھ سکے۔ مسلمان اگرچہ معاشی لحاظ سے کمزور ہیں ، لیکن اس کے باوجود اگر وہ بحیثیت ِاُمت متحد ہوجائیں اور اس ملک کا معاشی مقاطعہ کردیں اور متعلقہ ملک کے ساتھ برآمدی و درآمدی تجارت ختم کر دیں تو اس کا خاطر خواہ اثر پڑے گا، لیکن یہ حربہ اسی وقت مؤثر ہوسکتا ہے جب اُمت حقیقی طور پر متحد ہو اور جذبۂ شجاعت اور ایثار و قربانی سے کام لے اور دباؤ میں نہ آئے جیساکہ شاہ فیصل مرحوم نے تیل کی برآمد پر پابندی لگا کر دکھا دی تھی۔ 4.بین الاقوامی قانون سازی: مسلم اُمت اگر متحد ہوجاے تو آسانی سے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے ایسا ریزولیوشن منظور کروایا جا سکتا ہے کہ کسی بھی مذہب یا تہذیب کے ان رہنماؤں کی توہین جرم تصور ہوگی جنہیں کروڑوں افراد محترم و مقدس گردانتے ہیں ۔اس حوالے سے اقوامِ متحدہ کے بنیادی حقوق کے چارٹر میں ترمیم بھی ہونی چاہئے اور اس اُصول کی خلاف ورزی کو عالمی عدالت انصاف میں چیلنج کرنے کی راہ بھی ہموار ہونی چاہئے۔ 5.فروغِ اتحاد:مسلم دانشوروں ، رہنماؤں اور علماے کرام کو اس طرح کے مواقع کو اُمت مسلمہ میں اتحاد پیدا کرنے کا وسیلہ اور نادر موقع سمجھ کر استعمال کرناچاہئے۔ مسلمانوں میں باہم بہت سے اختلافات ہوسکتے ہیں اور ہیں ، لیکن نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت و تقدس کے حوالے سے ان میں بہرحال کوئی اختلاف نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سب مسلمانوں کا مشترکہ سرمایہ ہے۔ لہٰذا محبت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مسلمانوں میں بنائے اتحاد بنا کر اس اتحادکو مزید مضبوط کرنے کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں اور فرقہ وارانہ اختلافات، تعصبات اور انتشار کو ہوا دینے والے اقدامات کے