کتاب: محدث شمارہ 339 - صفحہ 19
ہنگامی اجلاس ہوا۔ خود پاکستان کے اندر پچھلی دفعہ احتجاجی مظاہرے اور جلوس ہزاروں افراد پر مشتمل ہوتے تھے، اب سو دو سو افراد کی ریلیاں نکلتی ہیں ۔ اس طرح کے واقعات اگر خوانخواستہ وقتاً فوقتاً جاری رہے تو ایک وقت آئے گا کہ یہ معمول بن جائیں گے اور ہمارا ردعمل بتدریج ختم ہوتا چلا جائے گا یہاں تک کہ یہ سلسلہ بعض دینی رہنماؤں کے اخباری بیانات تک محدودرہ جائے گا۔ ٭ اہل مغرب کے ان مقاصد اور طریق کار کے جواب میں ہمارا رد عمل کیا ہونا چاہئے ؟ چند تجاویز درج ذیل ہیں : 1.ابلاغی و فکری مزاحمت: مغرب کے اس طرح کے حملے کی بھر پور مزاحمت کی جائے خصوصاً الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیاپر۔ بدقسمتی سے اس وقت حالت یہ ہے کہ مسلمان ابلاغ عامہ اور پروپیگنڈے کے میدان میں اہل مغرب سے بہت پیچھے ہیں ۔ اوّل تو ان کے پاس طاقتورمیڈیا نہیں اور جو برا بھلا ہے، وہ زیادہ تر ان افراد کے ہاتھ میں ہے جو فکری اور تہذیبی طور پر مغرب سے مرعوب و متاثر بلکہ ان کے نقال اور گماشتے ہیں ۔ ان سے کیا توقع کی جائے کہ وہ مغرب کا بھرپور جواب دیں گے اور دینی حمیت کا ثبوت دیں گے؟ دینی چینل اوّل تو ہیں نہیں اور جو ہیں وہ فرقہ واریت کی لپیٹ میں ہیں ۔ لہٰذا ایک ایسے چینل کی ضرورت ہے جو اسلام کا ہو، کسی خاص فرقے یا مسلک کا نہ ہو۔ بہرحال ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ضمن میں ہمارا رویہ جارحانہ ہو اور ہم حکمت و تدبر کے ساتھ ان کو منہ توڑ جواب دیں اور ان کے خبث ِباطن کو دنیا پر عیاں کریں ۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں تعلیم، معیشت، معاشرت، سیاست غرض سارے شعبہ ہائے حیات میں ان کی فکری اور تہذیبی مزاحمت کرنی چاہئے اور اس کا مؤثر اظہار بھی میڈیا کے ذریعے ہونا چاہئے۔ 2. دعوت کے مواقع: اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مغرب کے ابلاغی و عسکری حملوں کو وہاں کے سارے عوام کی حمایت حاصل نہیں ہے یہ بعض متعصب حکمرانوں ، دانشوروں ، صہیوینوں اور شدت پسند عیسائیوں کی حکمت ِعملی کا نتیجہ ہے اور مغربی حملوں اور مسلم ممالک میں اس کے رد عمل کے نتیجے میں مغربی عوام میں حقائق جاننے اور اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں صحیح، مصدقہ اور براہِ راست (فرسٹ ہینڈ) معلومات حاصل کرنے کی ایک طلب اُبھر آئی