کتاب: محدث شمارہ 339 - صفحہ 18
ذریعے) کامزید موقع مل جائے جن کے ذریعے وہ مسلمانوں کی ذہن سازی کر سکے اور ان کے دل و دماغ فتح کرسکے تاکہ مسلمان مغربی فکر وتہذیب کے شائق و پرستار بن جائیں اورفکری و عملی لحاظ سے مغرب کے غلام بنے رہیں اور اسلام کی طرف لوٹنے کے خواب بھی نہ دیکھ سکیں ۔ ٭ اہل مغرب کے مقاصد کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ ہمیں ان کی طریق کار کو بھی سمجھنا چاہئے تاکہ ہم ان کا مؤثر تدارک کرسکیں ۔ اس حوالے سے دو باتیں اہم ہیں : 1. اہل مغرب کی دلیل یا ادعا یہ ہے کہ آزادیٔ اظہار رائے ہر آدمی کا بنیادی حق ہے لہٰذا ہمارا رویہ تو صحیح ہے اور غلط رویہ خود مسلمانوں کا ہے جو اختلافِ رائے کو برداشت نہیں کرسکتے۔ ظاہر ہے کہ ان کا یہ موقف محض کٹ جحتی پر مبنی ہے اور دنیابھر کے اہل علم و عقل جانتے اور مانتے ہیں کہ دوسرے تصورات کی طرح آزادی بھی کبھی لامحدود نہیں ہوتی بلکہ ہمیشہ بعض قیود و استثناء ات سے گھری ہوتی ہے(جیسا کہ زندگی کے دوسرے شعبوں میں ہوتا ہے اور ٹریفک قوانین سے لے کر پارلیمنٹ میں اہم اُمور میں قانون سازی تک ہم سب کا روزمرہ کا مشاہدہ ہے)۔ لہٰذا ایک آدمی کو ایسے اظہار کی آزادی کیسے دی جا سکتی ہے جس سے کروڑوں لوگوں کے دل دکھیں اور اُنہیں تکلیف پہنچے۔ لہٰذا اہل مغرب کا لا محدود اور مادر پدر آزادی کا تصور عقلی و منطقی لحاظ سے بھی غیر معقول ہے اور یہ کوئی جینوئن ’حق‘ نہیں جس کی حمایت کی جائے۔ 2.اہل مغرب کی تکنیک اور نفسیاتی حربہ یہ ہے کہ وہ ہمیں دوڑا دوڑا کر اور تھکا کر نڈھال کرنا چاہتا ہے۔ اُس نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اس امت کی بقا اور اتحاد کا ایک بڑا سبب محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے تو اب وہ وقفے وقفے سے توہین رسالت کرتا رہتا ہے تاکہ مسلمانوں کے اندر سے ان کے الفاظ میں محبت ِرسول کا ’بخار‘ بتدریج اُتر جائے۔ پہلی دفعہ مسلم دنیا کا ردعمل بہت شدید تھا۔ سارے عالم اسلام میں ہنگامے ہوئے، متعلقہ ملکوں کے معاشی بائیکاٹ کی تحریک چلی اور بہت سے لوگ شہید ہوئے۔ پھر دوسرے موقعہ پر کم شدید رد عمل ہوا مثلاً اِس دفعہ دیکھئے توتحریک کا زور صرف پاکستان میں ہے، بنگلہ دیش دوسرا ملک ہے جس نے فیس بک پر پابندی لگائی۔ باقی مسلم ممالک سوئے پڑے ہیں ۔ حکومتی سطح پر رد عمل بھی ڈھیلا ڈھالااوربرائے نام ہے۔ نہ اقوامِ متحدہ میں احتجاج ہوا، نہ او آئی سی کا