کتاب: محدث شمارہ 339 - صفحہ 17
کرنی چاہئے۔جو دینی تحریکیں اور تنظیمیں حرمت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں جلسے جلوس نکالتی ہیں اُنہیں چاہئے کہ وہ جلسے جلوسوں میں درود شریف پڑھنے کے ساتھ استغفارکی رغبت بھی دلائیں اور احساسِ توبہ کو اُجاگر کیا جائے تاکہ مسلمانوں کو احساس ہو کہ ان کی اس مصیبت کا اصل سبب ان کی دین سے دوری اور اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی ہے جس کی وجہ سے وہ دنیا میں بے وقعت ہو کر رہ گئے ہیں ۔ یہاں تک کہ ان کے دشمن ان کے پیغمبر کا مضحکہ اُڑانے کو معمولی بات سمجھتے ہیں اور آئے روز یہ کام کرتے رہتے ہیں ۔ لہٰذا اُصولی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنے دین سے محکم وابستگی اختیار کر نی چاہئے تاکہ دنیا میں بھی ان کی عزت و وقار ہو اور آخرت میں بھی وہ سرخرو ہوں ۔ دور رَس اقدامات یہ تھے وہ چند اقدامات جو ہماری رائے میں مغرب کی طرف سے توہین رسالت کے کسی اقدام کے نتیجے میں مسلمانوں کو فوراً روبہ عمل لانے چاہئیں ۔ اب آئیے ان دور رَس اقدامات کی طرف جو مسلمانوں کو ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچ کر اور منصوبہ بندی سے کرنے چاہئیں تاکہ مستقبل میں اس قسم کے واقعات کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔ اس غرض سے مسلمانوں کو اہل مغرب کی دشمنی کے پیچھے پوشیدہ ان غیر اعلانیہ اور غیر تحریری مقاصد و اَہداف کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے جو ہماری طالب علمانہ رائے میں یہ ہیں : 1. مغربی منصوبہ سازوں کی خواہش یہ ہے کہ مغرب میں اسلام کو پھیلنے سے روکاجائے۔ اس غرض سے وہ مسلمانوں اور ان کے دین و پیغمبر کو دہشت گرد اور دہشت گردی کا حامی اور علمبردار ثابت کرنا چاہتے ہیں تاکہ مغربی عوام اسلام اور مسلمانوں سے متنفر ہو جائیں ، اسلام کا ہمدردانہ مطالعہ نہ کر سکیں اور یوں ان کے اسلام قبول کرنے کے مواقع کم ہوجائیں ۔ 2.مغرب کی طرف سے توہین رسالت کے اقدامات کے جواب میں اگر مسلمان ردعمل کا شکار ہو کر مشتعل ہوجائیں تو اُنہیں انتہاپسند اور دہشت گرد قرار دیا جائے اور ان پر معاشی پابندیاں لگا کر ان کی اقتصادی حالت کو تباہ کیا جاسکے اور ان پر حملے کر کے ان کا سارا ترقیاتی ڈھانچہ تباہ کر دیا جائے تاکہ وہ ترقی کر کے اپنے پاؤں پر کھڑے نہ ہوسکیں اور اپنی اقدار کے مطابق زندگی نہ گزار سکیں اور مغرب کو ایسے پُر امن اقدامات (مثلاً تعلیم و میڈیاکے