کتاب: محدث شمارہ 339 - صفحہ 15
رسول مکرم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی توہین ہوگی تو اس کا دل دکھے گا۔ کسی ایک یا دو ملکوں میں احتجاج ہونا بے معنی بھی ہے اور بے تکا بھی جسے غیر مسلم دنیا نہیں سمجھ سکے گی، کیونکہ اگر مسلمانوں کے پیغمبر کی توہین ہوئی ہو تو یہ ہر مسلمان کا اور ہر مسلمان ملک کا مسئلہ ہونا چاہئے نہ کہ محض کسی ایک یا دو ملکوں کا۔ مثلاً حال ہی میں فیس بک پر کارٹون بنانے کے مقابلے کا اعلان ہوا تو احتجاج صرف پاکستان میں ہوا یا تھوڑا بہت بنگلہ دیش میں ، عالمی سطح پر یہ احتجاج بہرحال اپنے اثرات کے حوالے سے زیادہ مؤثر ثابت نہ ہوا، کیونکہ دوسرے مسلم ممالک اس میں شریک ہی نہیں ہوئے۔ بلکہ اس سے پاکستان کے بارے میں یہ تاثر لازماً دنیا تک پہنچا ہوگاکہ یہاں کے عوام دوسروں سے زیادہ جذباتی اور’ انتہا پسند‘ ہیں ۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ عالم اسلام میں عوامی سطح پر رابطے اور تعاون کی جو دو تنظیمیں تھیں ، وہ دونوں غیر فعال ہوچکی ہیں ۔ ہماری مراد مؤتمر عالم اسلامی اور رابطہ عالم اسلامی سے ہے۔ لہٰذا اب مسلمانوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں رہا کہ وہ ایک نئی تنظیم بنائیں ۔ اس کی فطری صورت تو یہی ہے کہ پہلے پاکستان میں ایک ایسی ’تحریک حرمت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم ‘ بنے جس میں یہاں کے سارے دینی اور شہری عناصر شریک ہوں ۔ پھر یہ تحریک دوسرے مسلم ممالک کی دینی تحریکوں اور اسلامی عناصر سے رابطہ کرے اور اس طرح ہر مسلمان ملک میں ایک تحریک حرمت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم وجود میں آجائے۔ پھر ان ساری حرمت تحریکوں کا ایک ہیڈ آفس بنا دیا جائے۔ اس طرح سارے مسلم ممالک کی تحریک ہائے حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک نیٹ ورک وجود میں آجائے۔ اس نیٹ ورک کو ان ممالک میں بھی پھیلا دیا جائے جہاں مسلمان بڑی اقلیتوں کی صورت میں ہیں ۔ یہ نیٹ ورک اگر بن جائے اور ایک عالمی تحریک حرمت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم وجود میں آجائے جس کی ایک کال پر ساری دنیا میں توہین رسالت کے خلاف احتجاج منظم ہوجائے تو پھر یہ احتجاج ان شاء اللہ مؤثر بھی ہوگا۔
2.حکومتی سطح پر احتجاج
مغرب کی طرف سے توہین رسالت کے خلاف عوامی سطح پر احتجاج کافی نہیں بلکہ مسلم حکومتوں کو بھی اس پر احتجاج کرنا چاہئے۔ مسلمان حکومتوں کی تنظیم او آئی سی کا بھی فرض ہے کہ وہ ایسے حالات میں فوراً حرکت میں آئے۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں یہ مسئلہ اُٹھائے۔