کتاب: محدث شمارہ 339 - صفحہ 14
اس مقصد کے حصول کے لئے اوّلاً تو یہ ضروری ہے کہ ساری قوم اور ساری تنظیمیں / جماعتیں / تحریکیں اور اِدارے مل کراس مقصد سے ایک مشترکہ تنظیم بنا لیں اور اس مقصد سے بنائی گئی موجودہ تنظیمیں باہم مدغم ہو کر ایک بڑی تنظیم بن جائیں یا کم از کم وہ اشتراکِ عمل ہی کرلیں ۔ لیکن اگر ہم یہ نہیں کرتے تو اس کا کیا مطلب لیا جا سکتا ہے سوائے اس کے کہ ہمیں ناموسِ رسالت کے مقابلے میں اپنی تنظیم، جماعت اور اپنے مسلک کا تشخص زیادہ عزیز ہے۔ العیاذ باللہ! ہمیں یادہے کہ ماضی میں بعض سیاسی جماعتوں کی دیکھا دیکھی بعض دینی جماعتوں نے بھی اپنی قوت کے اظہار کے لئے ملین مارچ کئے تھے۔ ہم کہتے ہیں کہ ہمیں اس سوال کا سامنا کرنا چاہئے کہ کیا ہمیں اپنی جماعت کی ساکھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت سے بھی زیادہ عزیز ہے کہ ہم اپنی سیاسی ساکھ کے لئے تو ملین مارچ کا اہتمام کرتے ہیں ، لیکن اس پیغمبر کی بے حرمتی ہو جس سے محبت ہمارا جزوِ ایمان ہے تو اس کے لئے ہم چند سو افراد کی ریلی نکال کر مطمئن ہوجائیں ؟ ہم تو کہتے ہیں کہ اس کے لئے ساری قوم کو متحد ہو کر نکلنا چاہئے جس طرح کہ ماضی میں شانِ اسلام کا جلوس نکلا تھا۔ 2. یہ بھی ضروری ہے کہ یہ احتجاج پُر اَمن ہو۔ ٹریفک کے اشارے توڑنا، گاڑیوں پر پتھراؤ کرنا، دکانوں ، بنکوں اور اقوامِ متحدہ و مغربی ممالک سے متعلق دیگر عمارات کو آگ لگانایا متعلقہ ممالک کے پرچم یا پتلے جلانا… جیسے اقدامات احمقانہ ہیں کیوں کہ ہم ان سے نہ صرف اپنا مالی نقصان کرتے ہیں بلکہ اہل مغرب کو یہ پیغام بھی دیتے ہیں کہ ہم واقعی تشدد پسند ہیں ۔ پھر ہر صاحب ِنظر جانتا ہے کہ عوامی تحریکیں اسی وقت کامیاب ہوتی ہیں جب وہ پُر امن ہوں ۔ جو تحریک تشدد پر اُتر آئے وہ ناکام ہوجاتی ہے، کیونکہ ریاست کو اسے کچلنے کا بہانہ مل جاتا ہے ۔پاکستان میں حال ہی میں کامیاب ہونے والی وکلا تحریک کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ 3. اہل مغرب کی طرف سے توہین رسالت کے خلاف احتجاج مقامی یا ملکی سطح کا نہیں بلکہ عالمی سطح کا ہونا چاہئے۔ یہ عالم اسلام کے ہر ملک میں ہونا چاہئے اور ان ملکوں میں بھی ہونا چاہئے جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں ، کیونکہ ایک مسلمان جہاں بھی ہوجب اس کے