کتاب: محدث شمارہ 339 - صفحہ 13
موجود ہے، باقی اقدامات علمی یا نظریاتی حیثیت رکھتے ہیں ۔ [درحقیقت اس صورتحال کا کلی خاتمہ تواس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک اُمت ِمسلمہ اپنی ہمہ جہتی قوت سے اپنے مخالفوں کے دل میں رعب طاری نہ کردے۔ دنیا میں پر امن بقاے باہمی ملی قوت اور زورِ بازو سے ہی مل سکتی ہے اور جرمِ ضعیفی کی سزا یہی ہے جو ملت ِ اسلامیہ آج بھگت رہی ہے۔]
فوری سد ِباب کے مراحل:فوری اقدام کے طور پر جو احتجاج کیا جائے، اس کے خدو خال یہ ہونے چاہئیں :1. عوامی احتجاج، جس میں تین خصوصیات ہوں:
٭ احتجاج میں لاکھوں افراد شریک ہوں ٭ یہ پُرامن ہو ٭ یہ عالمی سطح کاہو
2. حکومتی سطح پر احتجاج 3. استغفار
1.عوامی احتجاج
مغرب کی طر ف سے توہین رسالت کے جواب میں بھرپور عوامی احتجاج ہونا چاہئے، لیکن اس احتجاج کے مؤثر ہونے کی تین شرائط ہیں :
1.اہل مغرب کی طرف سے توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقدام پر احتجاج کرتے ہوئے عوامی سطح پر بڑے بڑے اور پُر امن مظاہرے ہونے چاہئیں جن میں لاکھوں افراد شریک ہوں اور جن کی قومی اور بین الاقوامی سطح پر پبلسٹی کا بھرپور انتظام ہو۔پاکستان میں اس مقصد کے لئے ضروری ہے کہ سارے دینی عناصریکجا اور متحد ہوجائیں ۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ ہر جماعت اور تنظیم اپنی اپنی پارٹی کے جھنڈے اور بینرز اٹھائے ہوئے چند سو کی تعداد میں سڑکوں پر نکلتی ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی ریلیاں ایک طرف عالمی سطح پر (یاد ر ہے کہ یہ کوئی مقامی مسئلہ نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح کامسئلہ ہے اور ہمیں اس طرح سے احتجاج کرنا ہے جس کے اثرات یورپ و امریکہ تک پہنچیں ) کوئی اچھاتاثر نہیں چھوڑتیں ۔(اگرچہ نہ ہونے سے بہر حال بہتر ہیں ، لیکن یورپ و امریکہ میں دیکھئے، مثلاً عراق پر امریکی حملے کے خلاف وہاں لاکھوں افراد کے مظاہرے ہوئے) دوسری طرف یہ ہمارا پول کھولتی ہیں کہ ہم اپنے نبی مکرم(صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ناموس کے لئے بھی متحد نہیں ہوسکتے اور ہر چھوٹی بڑی جماعت کو اپنا تشخص اور اپنا نام اتنا عزیزہے (یعنی ناموسِ رسالت سے بڑھ کر عزیزہے) کہ وہ اس مقصد کے لئے بھی اکٹھے نہیں ہوسکتے۔