کتاب: محدث شمارہ 339 - صفحہ 11
عالم اسلام اور مغرب پروفیسر ڈاکٹر محمد امین توہین رسالت کے خلاف ردِعمل کو مؤثرکیسے بنایا جائے ؟ اس حقیقت سے ہر مسلمان اور ہر پاکستانی واقف ہے کہ امریکہ اور یورپ، اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں ۔ اگرچہ ہم مغرب کی طاقت سے خوفزدہ ہو کر، اس کی غالب فکر و تہذیب سے مرعوب ہوکر، اس کی زبردست پروپیگنڈا مشینری سے متاثرہو کر، بین الاقوامی سطح کے سیاسی پلیٹ فارموں پر ’ڈپلومیٹک‘ (یعنی منافقانہ) انداز اختیار کرتے ہوئے اور گلوبلائیزیشن اور مذاہب و تہذیبوں کے درمیان مکالمے کے علمی پلیٹ فارموں پر معروضی انداز اختیار کرنے کے زعم میں بالعموم اس کا اظہار نہیں کرتے یا نہیں کر پاتے۔ اور یہ بات آج کی نہیں ، صدیوں پرانی ہے بلکہ مغربی تہذیب کا خمار اُٹھا ہی اسلام اور مسلمان دشمنی پر ہے۔ جب ۱۴۵۳ء میں سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کر لیا اور مشرقی رومن کیتھولک ہیڈ کوارٹر پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا تو وہاں سے نکلنے والے عیسائی پادریوں نے سارے یورپ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز تقریروں سے آگ لگا دی اور اس سے یورپ کی نشأۃِ ثانیہ نے تحریک پکڑی۔ متحدہ یورپ کی طرف سے شروع کردہ صلیبی جنگیں بھی اسی کا مظہر تھیں اور یہ بھی اسی کا شاخسانہ تھا کہ یورپ نے مسلمانوں کو باہم لڑانے کے لئے سازشیں کیں اور اُنہیں کمزور کر کے اپنی برتر فوجی قوت سے بہیمیت سے کچلا اوراُن کے ملکوں پر قبضہ کرلیا۔ پھر مسلم تہذیب کی ایک ہزار سالہ خوشحالی سے جمع کردہ مسلمانوں کی دولت اور مادی وسائل کو بے دردی سے لوٹا اور ان سے سائنس و ٹیکنالوجی کو ترقی دے کراپنے رخساروں کی لالی میں اضافہ کیا۔ بیسویں صدی کے وسط میں باہم دو عظیم جنگوں سے جب یورپ کمزور ہوگیا تو اسے مجبوراً مسلم ملکوں کو آزادی دینا پڑی۔ اس ادھوری اور نام نہاد آزادی کے بعد بھی امریکہ و یورپ کی مسلمان ملکوں کے خلاف پُر امن سازشیں اور پلاننگ جاری رہی اور وہ اُنہیں سیاسی، معاشی، دفاعی، تعلیمی غرض ہر لحاظ سے پیچھے رکھنے کے لئے کامیاب کوششیں کرتے رہے۔ان سازشوں کے باوجود جب چند مسلم ممالک بطورِ استثنیٰ کچھ بہتر حالت میں آگئے (جیسے پاکستان ایٹمی