کتاب: محدث شمارہ 339 - صفحہ 10
بد خیالی کے ساتھ قادیانیوں کو مسلمانوں کا کلمہ پڑھنے کی اجازت دی جاسکتی ہے؟
قادیانی ڈائریکٹر کی پریس کانفرنس کی تفصیلات پڑھ کر ایک عام مسلمان پریشان ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ۲۸/ مئی ۲۰۱۰ء کو قادیانیوں کی عبادت گاہوں میں ہونے والی دہشت گردی کو قادیانی اپنے حق میں استعمال کرنا چاہتے ہیں ۔بلا شبہ یہ انتہائی گھناؤنی واردات تھی۔ اسلام میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر کوئی اس طرح اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر حملوں کو ’جہاد‘ کا نام دیتا ہے تو اس کا دعویٰ اتنا ہی باطل ہے جتنا کہ قادیانیوں کا یہ دعویٰ کہ وہ مسلمان ہیں ، اقلیت نہیں ۔ اسلامی شریعت کی رو سے مسلم ریاست مسلمان اور غیر مسلم اقلیتوں کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری ہے۔اس بارے میں کسی تفریق اور امتیاز کو روا رکھنا درست نہیں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں پاکستان کے قادیانیوں نے کوئی ایسا جرم نہیں کیا کہ ان کی عبادت گاہوں کو ہولناک دہشت گردی اور انہیں عمومی ہلاکت کانشانہ بنایا جائے۔
یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ علماے دین نے قادیانیوں کی عبادت گاہوں پر حملہ کرکے ان کو جان سے مار دینے کی حمایت کبھی نہیں کی۔ مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۸ء میں اپنی فطری موت مرا، حالانکہ ۱۸۹۲ء میں دو سو علماے کرام نے اس کے کفر کا فتویٰ دیا تھا۔ اس کے بعد اس کے خلفا بھی اپنی موت مرے، اُنہیں کسی نے قتل نہیں کیا۔پرویز مشرف کے دورمیں قادیانیوں کو بے جا مراعات حاصل رہیں مگر ان کی عبادت گاہوں پرایسے حملے نہ ہوئے۔ غرض اس طرح کی کارروائی قابل مذمت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں نے اس واقعہ کی بھرپور مذمت کی ہے۔ مگر یہ مناسب نہیں ہے کہ قادیانی اس ہمدردی کی لہر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پارلیمنٹ کی آئینی ترمیم کو واپس لینے کی تحریک شروع کردیں اور اپنے ’مسلمان‘ ہونے کا اعلان کرتے پھریں ۔ اس کا ردّعمل سامنے آسکتاہے اور ممکن ہے کہ قادیانی اس ہمدردی سے بھی اپنے آپ کو محروم کردیں جو اُنہیں مظلوم ہونے کے ناطے آج ہرطرف سے مل رہی ہے!! (محمد عطاء اللہ صدیقی)