کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 9
بل فرانسیسی پارلیمنٹ میں ۱۲ مئی کو پیش کردیا گیا، جس میں برقعہ یا نقاب اوڑھنے پر ۷۵۰ یورو کے جرمانہ کی سزا شامل ہے۔ بی بی سی نے خبر دی ہے کہ فرانس کی وزارتِ داخلہ کے مطابق فرانس میں برقعہ پوش خواتین کی تعداد ۱۹۰۰ سے زیادہ نہیں ہے۔ اس کے باوجود فرانس کی حکومت کی یہ حساسیت دراصل مستقبل کی پیش بندی ہے جس میں حقائق سے زیادہ مسلم کلچر کے پروان چڑھنے کا خوف غالب ہے۔ برقع پر پابندی کا یہ سلسلہ فرنچ صدر سرکوزی کی بیان بازی سے شروع ہوا ، جب گذشتہ سال اُس نے یہ قرار دیا تھا کہ فرانس میں ایسے ملبوسات کی کوئی جگہ نہیں جو خواتین حقوق سلب کرتے ہیں ۔ اس معاملے کو آگے بڑھاتے ہوئے فرانس کی ایک پارلیمانی کمیٹی نے ۲۰۰ صفحات پر مبنی رپورٹ دی جس میں یہ تجویز کیا گیا تھا کہ کٹر مذہبیت کا اظہار کرنے والوں کو رہائشی کارڈ اور شہریت سے محروم کردینا ہی مسئلے کااصل حل ہے۔
فرانس حقوقِ نسواں کا اَن تھک علم بردار ہے، لیکن مسلم خواتین پر یہ جبر اس کی حکومت کے لئے کسی فکر مندی کا باعث نہیں بنتا۔ البتہ فرنچ حکام کے لئے یہ امر باعث ِتشویش ہے کہ کوئی بھی برقعہ پوش خاتون اسے اپنے اوپر مردوں کا جبر قرار دینے کی بجائے اللہ کے احکام کا تقاضا باور کرتی ہے۔ یہ خواتین اسے اختیاری یا اخلاقی رویہ قرار دینے کی بجائے شریعت ِاسلامیہ کا براہِ راست مطالبہ سمجھتی ہیں ۔ ان مسلم خواتین کا کہنا ہے کہ ’یورپی کونسل برائے ہیومن رائٹس‘ کے قوانین بھی ان کو مذہبی تقاضوں کے مطابق ہر لباس پہننے کی آزادی فراہم کرتے ہیں ۔
فرانس میں اس قانون سازی سے قبل سرکاری گرفت کا خوف پیدا کرنے اور مسلمانوں کا رد عمل جاننے کے لئے ۲۴/اپریل کو ایک برقعہ پوش خاتون کو ٹریفک پولیس نے پکڑ لیا اور اُنہیں روڈ سیفٹی کے نام پر ۲۲یورو جرمانہ کیا گیا۔ یاد رہے کہ اس وقت تک فرانس میں چہرہ ڈھانپنے کی ممانعت پر کوئی قانون بھی موجود نہیں تھا۔
فرانس میں اس حوالے سے سماجی تناؤ اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ ۱۹ مئی ۲۰۱۰ء کو فرانس میں خواتین ملبوسات کی ایک دکان میں باحجاب مسلم خاتون سے ایک فرانسیسی خاتون وکیل کھلم کھلا اُلجھ پڑی۔ مسلم خاتون کے شوہر کی موجودگی کے باوجود فرانسیسی خاتون وکیل نے عورت کے چہرے سے نقاب کھینچ ڈالا اور اسے ’جہنم کی سفیر‘ کا نام دیتے ہوئے کئی فحش گالیاں بکیں ۔ عوام کی دخل اندازی سے مسلمان عورت کو چھڑایا گیا اور معاملہ پولیس نے اپنے کنٹرول میں