کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 80
دعوتی و تبلیغی پروگراموں کی بدولت قرآن و حدیث کی تعلیمات سے گونج گیا اور اس دور میں بریلوی علما نے برطانیہ میں اپنی ناپسندیدہ سرگرمیوں کے سبب بعض مساجدمیں انتشار اور فرقہ واریت کے پھیلاؤ کے باعث تالہ بندی تک نوبت پہنچا رکھی تھی، اس کا خوب انسداد ہوا اور شرک و بدعات کے بڑھتے ہوئے مغالطوں سے لوگ تائب ہوئے۔ بحمداﷲ مسلک ِاہل حدیث کی گویا دھاک بیٹھ گئی۔برطانیہ میں اب مرکزی جمعیت اہل حدیث کے تعلیماتی اور تبلیغی سلسلوں کا جوایک منظم کام ہے اس میں ۱۹۸۴ء کی ابتدائی اُن کاوشوں خصوصاً مولانا محمود احمد میرپوری اور مولانا عبدالکریم مرحومین کی تنظیمی و حکمت عملی پر مبنی تبلیغی مساعی کابہت بڑا دخل ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو اجر ِعظیم سے نوازے اور جمعیت کے وہاں کے موجودہ قائدین و کارکنان کی ہمتوں کو تقویت عطا فرمائے۔ آمین!
ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم و مغفور نے وقت کے اہم مسائل پربہت سی تصانیف بھی شائع کیں ۔ قومی اخبارات میں ان کے علمی و فکری کالموں کے ذریعے دینِ حق کا پیغام بلا شبہ عام ہوا۔ جس بات کو وہ درست اور حق سمجھتے، اسے برملا کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے۔ وہ اپنے موقف پر ہمیشہ چٹان کی طرح قائم رہتے ہوئے جرات و بیباکی سے بیان و کلام کی صلاحیتوں کو استعمال میں لاتے۔ ڈاکٹر صاحب سادہ طبیعت، خوش گفتار و خوش رفتار، شب زندہ دار اور مضبوط جسم و جان کے مالک تھے۔
وقت کی پابندی اور موضوع کے مطابق اظہارِ خیال کا کمال سلیقہ رکھتے تھے۔ اُنہیں قرآن حکیم کے تفسیری تشریحات اور نکتہ آفرینی پر عبور حاصل تھا، ملک بھر میں دعوتی پروگراموں کے ساتھ ساتھ بیرونی ممالک خصوصاً بھارت میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کے Peace ٹی وی پروگراموں میں ان کی اکثر شرکت رہتی، جن میں ہزارہا اَفراداور سامعین مستفید ہوتے۔ ٹیلی ویژن پر اُن کے مذاکروں اور سیمینارز کو خاص اہمیت دی جاتی،جن میں جدید دور کے تقاضوں اور گھمبیر مسائل کا حل وہ بڑی حکمت و دانش سے پیش فرماتے۔ علامہ اقبال رحمہ اللہ کے اُردو فارسی اشعار جب وہ تقریر کے دوران پڑھتے تو ایک سماں بندھ جاتا۔ افسوس اب ایسے ہمہ اوصاف صاحب ِفکر وعمل کہاں ؟ دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ورثا اورخلف الرشید حافظ عاکف سعید کو اُن کے قائم کردہ اقامت ِدین کے اداروں کو ترقی اور فروغ دینے کی توفیق بخشے اور ڈاکٹر صاحب کی حسنات و خدماتِ دینیہ کو قبول و منظور فرما کر ان کی بخشش فرمائے۔ آمین!